نہیں صرف قتیل کی بات یہاں، کہیں ساحرؔ ہے کہیں عالیؔ ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی
Printable View
نہیں صرف قتیل کی بات یہاں، کہیں ساحرؔ ہے کہیں عالیؔ ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
ایک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
ہر آنگن میں سجے نہ تیرے اجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال
بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ہرنی جیسی چال
بیچ میں رنگ محل ہے تیرا کھائی چاروں اور
ہم سے ملنے کی اب گوری تو ہی راہ نکال
یہ دنیا ہے خود غرضوں کی لیکن یار قتیل
تو نے ہمارا ساتھ دیا تو جئے ہزاروں سال
ہاتھ دیا اس نے جب مرے ہاتھ میں
میں تو ولی بن گیا اک رات میں
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں
شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی
درد مہکنے لگا جذبات میں
ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں