لکھا تھا کبھی یہ شعر تم نے
اب دو سرا شعر کب لکھو گے
Printable View
لکھا تھا کبھی یہ شعر تم نے
اب دو سرا شعر کب لکھو گے
جتنا بھی قریب جاؤ گے تم
انساں کو عجب عجب لکھو گے
ہر لمحہ یہاں ہے ایک ہو نا
کس بات کا کیا سبب لکھو گے
جب را ت کو نیند ہی نہ آئے
پھر رات کو کیسے شب لکھو گے
انساں کا ہو گا ہا تھ اس میں
اللہ کا جو غضب لکھو گے
بچے کے بھی دل سے پو چھ لینا
کیا ہے وہ جسے طرب لکھو گے
صدیوں میں وہ لفظ ہے تمھارا
اک لفظ جو اپنا اب لکھو گے
میں اپنے وجود کا ہوں شاعر
جو لفظ لکھوں گا سب لکھو گے
اک نظارہ ہوں آنسو سے گہر ہو نے تک
اک تماشا ہوں میں شعلے سے شرر ہو نے تک
تو ہے وہ رنگ کہ آنکھوں سے نہ اوجھل ہو گا
میں ہوں وہ خواب کہ گزروں گا سحر ہو نے تک
لکھتے ہیں پر یہ نہیں جانتے لکھنے والے
نغمہ اندو ہ سماعت ہے اثر ہو نے تک
تو کہیں بھی رہے زندہ ہے لہو میں میر ے
میں سنواروں گا تجھے خاک بسر ہونے تک
ہائے وہ شمع جو اب دور کہیں جلتی ہے
میرے پہلو میں بھی پگھلی ہے سحر ہو نے تک
اپنا احوال سنا کر لے جائے
جب مجھے چاہے منا کر لے جائے
میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو
میری تنہائی اٹھا کر لے جائے
وہ مجھے بھول گیا ہے شاید
یاد آ جاؤں تو آ کر لے جائے
ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں
خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے
خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو
جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے
در خزانے کا کہیں بند نہیں
یہ خزانہ کوئی آ کر لے جائے
تجھ کو بھی کوچۂ عشاقاں میں
اپنے مولا سے دعا کر، لے جائے
دھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا
اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے
کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے
اک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے
ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے
کون محبوب ہوا ہے ایسا
اپنے عاشق کو بُلا کر لے جائے
پھر سے آ جائے کوئی چپکے سے
کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے
اس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں
جو مرے دل کو دکھا کر لے جائے
کوئی عیسیٰ مرے معبود کہ جو
تیرے مردوں کو جِلا کر لے جائے
ایسی دیوانگی و حیرانی
آئینہ کوئی دکھا کر لے جائے
سامنے سب کے پڑی ہے دنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے
ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے
ہو سخنور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرا کر لے جائے
ہنسو تو رنگ ہوں چہرے کا، روؤ تو چشمِ نم میں ہوں
تم مجھ کو محسوس کرو تو ہر موسم میں ہوں
چاہا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ہیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں ہوں
لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاعِ آوارہ ہوں آئینۂ شبنم میں ہوں
اُس لمحے تو گردش خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمین اٹھائے اک رقصِ پیہم میں ہوں
یار مرا زنجیریں پہنے آیا ہے بازاروں میں
میں کہ تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں ہوں
جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں آنکھوں زندہ ہیں
جواب تک نہیں لکھ پایا میں ، آن خوابوں کے گم میں ہوں
ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے
جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے