رہئے مشتاق جلوہ دیدار
ہم نے مانا نظر نہیں آتا
Printable View
رہئے مشتاق جلوہ دیدار
ہم نے مانا نظر نہیں آتا
پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ
پھر نہ رکیے جو مدّعا کہیے
ایک کے بعد دوسرا کہیے
صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے
پر اسے دیر آشنا کہیے
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
ہے دوا انکی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں