اس کے اک اک حرف کی تہہ میں چاہت کا اک دریا دیکھا
لیکن اس کی آنکھ میں ہم نے اکثر پیاس کا صحرا دیکھا
درد کی رت میں کون کسی کے زخم پہ مرہم رکھتا ھے
سردی کی راتوں میں ہم نے پورے چاند کو تنہا دیکھا
Printable View
اس کے اک اک حرف کی تہہ میں چاہت کا اک دریا دیکھا
لیکن اس کی آنکھ میں ہم نے اکثر پیاس کا صحرا دیکھا
درد کی رت میں کون کسی کے زخم پہ مرہم رکھتا ھے
سردی کی راتوں میں ہم نے پورے چاند کو تنہا دیکھا
اس معرکہء عشق میں اے اہل ۔محبت
آساں ہے عداوت پہ عداوت نہ کی جائے
ہم اپنے مزاج میں کسی بھی در کے نہ ہوسکے
کسی سے ہم ملے نہیں کسی سے دل ملا نہیں
نہ نیند میری نہ خواب میرے اور نہ زندگی
مجھے مجھ سے ہی دستبردار کر گیا وہ شخص
نصیب پھر کوئی تقریب ہو کہ نہ ہو
جو دل میں ہو وہی باتیں کیا کرو اس سے
فراز ترک تعلق تو خیر کیا ہوگا
یہی بہت ہے کہ کم کم ملا کرو اس سے
لوگ پتھر مارنے آئے تو وہ بھی ساتھ تھے
ہم خطائیں جن کی اپنے نام لکھواتے رہے
یاد ہے آنکھوں کے آگے اِک دُھند کا منظر
کس پل مجھ سے وُہ بچھڑا تھا یاد نہیں ہے
یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
اب تیرا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذودِ پیشیماں کا پیشیماں ہونا
کب تلک یہ عذاب دیکھوں میں؟
گھر میں صحرا کے خواب دیکھوں میں
اَبر، تشنہ لبی کا دُشمن ہے
ریت چمکے سراب دیکھوں میں
محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا؟
بھُلا چکے ہیں اُسے پھر سے یاد کیا کرنا؟
وہ بے وفا ہی سہی اُس پہ تہمتیں کیسی
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا
وقت کی آنچ پر پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
قہقہے ٹوٹ کر اشکوں میں بکھر جاتے ہیں
کون نبھاتا ہے کسی کا ساتھ عمر بھر
وقت کے ساتھ خیالات بھی بدل جاتے ہیں
کمرے سے باہر کا منظر
بادل بارش اور ہوا
کمرے کے اندر کا موسم
آنکھیں، آنسو اور دعا
اس کو اپنی ذات کا محور سجھ بیٹھا ہوں
جو اپنی ذات سے باہر نکلتی ہی نہیں
نام بھی جس کا زبان پر تھا دعاؤں کی طرح
وہ مجھے ملتا رہا نا آشناؤں کی طرح
یہ دل بُرا سہی ، سرِ بازار تو نہ کہہ
آخر تُو اِس مکان میں کچھ دن تو رہا ہے
یہ سچ ہے عقل نے مجھے پختگی تو دی
مگر وہ مزا کہاں جو نادانوں میں تھا
گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا ، میری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے
اب تو مل جاؤ ہمیں تم ، کہ تمہاری خاطر
اتنا دور آگئے ، دنیا سے کنارہ کرتے
وہ ماہتاب جو ڈوبا ھوا ملال میں تھا
مجھے خبر ھی نہیں ھے میں کس خیال میں تھا
شکست کھا کے بھی میں سرخرو سا لگتا ھوں
کہ دوستی کا مزا دشمنوں کی چال میں تھا
یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے
نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرادیکھوں
شام بھی ہوگئی،دُھند لاگئیں آنکھیں بھی مری
بُھولنے والے،میں کب تک ترارَستا دیکھوں
نہ ہوں شاد کیوں اپنی مایوسیوں پر
مرے حال پر اک جہاں مسکرایا
نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا
تو نے ہم کو بھی پارسا رکھا
ہم رات بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہوتو پھر نیند کہاں کی
اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو
کہتے ہو کبھی بات وہاں جا کے یہاں*کی
یوں تو وہ میری رگ جاں سے بھی تھے نزدیک تر
آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے
گو زرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
Iss zindagi mein itni faraghat kise naseeb
Itna na yaad aa k tuje bhool jaain hum
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہےکیا لوح و قلم تیرے ہیں
تم نے یہ کیسا رابطہ رکھا
ملے ہو نہ فاصلہ رکھا
نہیں چاہا کسی کو تیرے سوا
تو نے ہم کو بھی پارسا رکھا
زندگی جبرِ مُسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کِس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
وہ تو کچھ ہو ہی گئی تم سے محبت ورنہ
ہم تو وہ خود سر ہیں کہ اپنی بھی تمنا نہ کریں
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
سب کچھ خُدا سے مانگ لیا تُجھ کو مانگ کر
اُٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مِرے ، اِس دُعا کے بعد
میں جانتی ہوں کہ تو میرا ہو نہیں سکتا
میں اس لئے تیرا اتنا خیال رکھتی ہوں
وقت دو ہی کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اک تیرے آنے سے پہلے اک تیرے جانے کے بعد
بھول جانا تو رسمِ دنیا ہے
آپ نے کون سا کمال کیا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
ہزار شکر کہ مایوس کر دیا تُو نے
یہ الگ بات کہ تجھ سے بڑی اُمیدیں تھیں