جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
Printable View
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
اب مرا نام مرے ساتھ مٹایا جائے
چاندنی کم ہے یہاں سب کے اجالے کے لیے
رات اندھیری ہے بہت چاند جلایا جائے
کرۂ ارض پہ اب نیند اتر آئی ہے
اِن پرندوں سے کہو شور مچایا جائے
سرد پانی میں نہیں ریت پہ مر جاؤں گا
اس سے کیا ہوگا اگر مجھ کو بچایا جائے
اب پرندوں کی نہیں پیڑ کی سازش ہے ندیم
جس طرف اس نے راستہ موڑا
خود کو اس سمت میں نے موڑ دیا
تجھ سے کوئی گلہ نہیں اے دوست
فیصلہ اس پہ میں نے چھوڑ دیا
اب مرے ہونٹ بھی ہیں پتھر کے
جس کو چوما اسی کو توڑ دیا
کاٹھ کی روٹی، ترے عشق کی زنجیر سو ہے
جو وراثت میں ملی تھی مجھے جاگیر سو ہے
غم ترا مجھ کو بدل پایا نہیں برسوں تک
یعنی دیوار پہ لٹکی تھی جو تصویر، سو ہے