ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
Printable View
ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
تُو کسی ایک ہی کا ہو کر رہ
خُو بُری ہے جو اِختیار نہ کر
فضا کا زہر ہی تریاق ہے تو پینے دے
مرے ضمیر! کرم کر مجھے بھی جینے دے
یہ ہم کہ غیر ہیں با وصفِ دعویٰٔ وحدت
جو راز دان ہوں باہم، ہمیں وہ سِینے دے
فضا کا زہر ہی تریاق ہے تو پینے دے
مرے ضمیر! کرم کر مجھے بھی جینے دے
فن میں بیٹھے ہیں بہت ٹھیک نشانے میرے
ختم ہوں گے نہ جب آئیں گے، زمانے میرے
ایک دن سچ کہ جو ہے زیر، زبر بھی ہو گا
ایک دن گائیں گے دشمن بھی ترانے میرے
اِس خطا پر کہ مجھے ناز ہے، پرواز پہ کیوں
آخرش کاٹ دئیے پر ہی، ہَوا نے میرے
کس کس کے لئے تھا وہ سبب راحتِ جاں کا
اب ذکر بھی جس شخص کا چھالا ہے زباں کا
نخچیر کا خوں خاک میں کیوں جذب ہوا تھا
لاحق یہی احساس تھا چیتے کو زباں کا