سر اُٹھانے کی رہ میں ہمارے لئے ہر کہیں ہے کڑے سے کڑا چودھری
یہ بڑا چودھری، وہ بڑا چودھری، اُس سے آگے بھی ہے اِک بڑا چودھری
Printable View
سر اُٹھانے کی رہ میں ہمارے لئے ہر کہیں ہے کڑے سے کڑا چودھری
یہ بڑا چودھری، وہ بڑا چودھری، اُس سے آگے بھی ہے اِک بڑا چودھری
ریوڑوں پر جھپٹتے ہوئے گُرگ سا آنگنوں گھونسلوں میں گھُسے سانپ سا
جھونپڑے جس جگہ بھی دکھائی دیئے، اُن میں دیکھا اکڑتا، کھڑا چودھری
سبزۂ زیرِ سنگِ گراں نے ذرا سر اُٹھایا جہاں اُس کا جی جل اٹھا
صورتِ حال ایسی جہاں بھی ملی، اُس سے ہے مخمصوں میں پڑا چودھری
نام سے اِک اسی کے تھی منسوب جو، لہلہاتی فضا میں، پتنگ اوج کی
ڈور ہاتھوں سے اُس کی نکلتے ہوئے دیکھ کر ہے زمیں میں گڑا چودھری
سرِ خروار مچلے ہیں شرر آہستہ آہستہ
ہُوا ہے آتشیں صحنِ نظر، آہستہ آہستہ
اُجڑنے کی خبر ٹہنی سے ٹہنی تک نہیں پہنچی
چمن میں سے ہُوا مِنہیٰ، شجر آہستہ آہستہ
زیردستوں کو رن میں دھکیلا کِیا، آن سے، جان سے اُن کی کھیلا کیا
پر جو ماجدؔ ہوئے اُس سے روکش ذرا، اُن سے آخر تلک ہے لڑا چودھری
ہُوا پھر یوں، جنوں پر عقل نے پہرے بِٹھا ڈالے
دِبک کر رہ گئے آشفتہ سر، آہستہ آہستہ
نظر میں ہے بہت بے رنگ دن کو اور بہ شب، روشن
فلک پر چاند کا ماجدؔ سفر آہستہ آہستہ
سانس میں غلطاں
گرد کے طوفاں