بس یوں ہی موجیں بھریں یہ طائران خدوخال
بس یوں ہے دیکھا کریں ہم گلشن گلزار دوست
Printable View
بس یوں ہی موجیں بھریں یہ طائران خدوخال
بس یوں ہے دیکھا کریں ہم گلشن گلزار دوست
ایسی تیز ہو ا اور ایسی رات نہیں دیکھی
لیکن ہم نے مو لا جیسی ذات نہیں دیکھی
اس کی شا ن عجیب کا منظر دیکھنے والا ہے
اک ایسا خو رشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی
بستر پر مو جو د رہے اور سیر ہفت افلاک
ایسی کسی پر رحمت کی بر سات نہیں دیکھی
اس کی آل وہی جو اس کے نقش قدم پر جائے
صرف ذات کی ہم نے آل سادات نہیں دیکھی
ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جا تی ہیں
کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی
اک دریائے رحمت ہے جو بہتا جاتا ہے
یہ شان برکات کسی کے ساعت نہیں دیکھی
شا ہوں کی تاریخ بھی ہم نے دیکھی ہے لیکن
اس کے در کے گداؤں والی بات نہیں دیکھی
اس کے نا م پہ ماریں کھانا اب اعز ا ز ہما را
اور کسی کی یہ عزت اوقات نہیں دیکھی
صدیوں کی اس دھو پ چھا ؤں میں کو ئی ہمیں بتلائے
پو ری ہو تی کونسی اس کی بات نہیں دیکھی
اہل زمیں نے کو نسا ہم پر ظلم نہیں ڈھا یا
کون سی نصرت ہم نے اس کے ہات نہیں دیکھی
ان دنوں روح کا عالم ہے عجب
جیسے جو حسن ہے میرا ہے وہ سب
دل پہ کھلتا ہے اسی موسِم میں
غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب
جیسے اک خواب میں نکلا ہوا دن
جیسے اک وصل میں جاگی ہوئی شب
جس سے ہو جائے جہاں ہو جائے
ہے محبت ہی محبت کا سبب
جاں فزا ہے جو عطا کرتے رہو
بوسۂ لب کی طرح بوسۂ لب
پہلے اک ناز بھرا ربط و گریز
اس نے پھر بخش دیا سب کا سب
تم سا کیا ہو گا یہاں خواب کوئی
مجھ سا کیا ہو گا کوئی خواب طلب
کاش تعبیر میں تم ہی نکلو
جب کوئی خواب ہو تعبیر طلب
اس کے عشّاق جہاں بھی دیکھو
ایک ہی نشّے میں ڈوبے ہوئے سب
سلسلے اس سے جو مل جائیں تو ٹھیک
ورنہ جھوٹے ہیں یہ سب نام و نسب
لوگ موجود ہیں اب بھی جن کے
منہ سے جو بات نکل جائے ادب
سایۂ زلف میں مر جاؤں علیم
کھینچ لے گر نہ مجھے سایۂ رب
دُکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دُکھاؤ نہیں
جو ہو گئے ہو فسانہ تو یاد آؤ نہیں
خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی ہیں
اب اس طرح تو مری روح میں سماؤ نہیں
زمیں کے لوگ تو کیا، دو دلوں کی چاہت میں
خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤ نہیں
تمہارا سَر نہیں طِفلانِ رہ گزر کے لئیے
دیارِ سنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ نہیں
سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ نہیں
ہمارے عہد میں یہ رسمِ عاشقی ٹھہری
فقیر بن کے رہو اور صدا لگاؤ نہیں
وہی لکھو جو لہو کی زباں سے ملتا ہے
سخن کو پردۂ الفاظ میں چھپاؤ نہیں
سپرد کر ہی دیا آتشِ ہنر کے تو پھر
تمام خاک ہی ہو جاؤ کچھ بچاؤ نہیں
ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
محو ِ آرائش ِ رُخ ہے وہ قیامت سر ِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے
جب ہے یہ خانۂ دل آپکی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں ، کیسے گوارا کرتے
کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے
ظرف ِ آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے
جب لفظ کبھی ادب لکھو گے
یہ لفظ میرا نسب لکھو گے