اس کی آل وہی جو اس کے نقش قدم پر جائے
صرف ذات کی ہم نے آل سادات نہیں دیکھی
Printable View
اس کی آل وہی جو اس کے نقش قدم پر جائے
صرف ذات کی ہم نے آل سادات نہیں دیکھی
جس سے ہو جائے جہاں ہو جائے
ہے محبت ہی محبت کا سبب
تمہارا سَر نہیں طِفلانِ رہ گزر کے لئیے
دیارِ سنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ نہیں
محو ِ آرائش ِ رُخ ہے وہ قیامت سر ِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے
ہر لمحہ یہاں ہے ایک ہو نا
کس بات کا کیا سبب لکھو گے
تو کہیں بھی رہے زندہ ہے لہو میں میر ے
میں سنواروں گا تجھے خاک بسر ہونے تک
ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں
خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے
سامنے سب کے پڑی ہے دنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے
اُس لمحے تو گردش خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمین اٹھائے اک رقصِ پیہم میں ہوں
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے
رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اس کے دامن سے
جھولیوں بھر لیے آنکھوں میں ستارے ہم نے
پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے
عہد شیطان کا خدا کے ساتھ
سرکشی ہے مگر عبادت ہے
بدن کا کھیل تھیں اس کی محبتیں لیکن
جو بھید جسم کا تھا جاں سے کھولتا تھا میں
ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہل قلم
وقت کی آنکھ نے دیکھا کے بہت خوب آئے
ختم ہو گا نہ کبھی سلسلہ اہل وفا
سوچ اسے داورِ مقتل یہ فضا کیوں چپ ہے
جرم ہے اب مری محبت بھی
اپنے اس قادر و قدیر کے ساتھ
ویسے ہی لکھو گے تو میرا نام ہی ہو گا
جو لفظ لکھے وہ میری جاگیر ہوئے سب
رکھتا نہ کیوں میں رُوح و بدن اُس کے سامنے
وہ یُوں بھی تھا طبیب وہ یُوں بھی طبیب تھا
ساقیا ! تو نے تو میخانے کا یہ حال کیا
بادہ کش محتسب شہر کے گن گاتے ہیں
یہ قوم عجیب ہو گئی ہے
اس قوم کو خوئے انبیا دے
اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
اور چاند کا دشت بھی آباد کبھی کر لینا
پہلے دنیا کے یہ اجڑے ہوئے گھر تو دیکھو
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے
لذّت کم آزار بہت ہے جس کا نام جوانی ہے
تم نے بھی میرے ساتھ اٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہُنر بھی آتا ہے
کچھ نذر ہوئے وقت کی بے رحم ہوا کے
کچھ خواب ابھی میرے لہو میں ہیں رواں اور
کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کن قدموں سے پامال ہوا
بس ایک لو میں اسی کے گرد گھومتے ہیں
جلا رکھا ہے جو اس نے دیا ہمارے لئے
اب کہاں جاؤں کہ گھر میں بھی ہوں دشمن اپنا
اور باہر مرا دشمن ہے نگہبانی کو
صرف انا ہی لکھواتی ہے ذات کی ہر سچائی
میں پہلے تحریر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
کھنچتی تھی جس سے حرف میں اک صورتِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ
کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے
یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر
کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے
مرتا ہوں آرزو میں کہ اے کاش لکھ سکوں
جیسے ہیں آپ ایسی غزل آپ کے لیے
زلف کی چھاؤں ہو کہ دار کی دھوپ
زندگی ہو جہاں قرار کرو
اک متاع ِ دل و جاں پاس تھی سو ہار چکے
ہائے یہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں ہم لوگ
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے
لذت کم آزار بہت ہے جس کا نام جوانی ہے
اور یہ عشق و ہوس کی دنیا
تشنگی کے سوا کیا پائے گی
دور تک ہم ہی نظر آئیں گے
جس طرف بھی وہ نظر جائے گی