-
بہت دور ایک گاؤں
بہت دور ایک گاؤں
بہتدور گاؤں ہے میرا
جہاںمیرے بچپن کے جگنو
ابھیتک گھنے پیپلوں پر چمکتے ہیں
میریزباں سے گرے توتلے لفظ اب بھی
کئیسال سے غیر آباد گھر کی
پرانی، جھکی، آخری سانس لیتی ہوئی
سیڑھیوںپر پڑے ہیں
کہجیسے خموشی کے سینے میں خنجر گڑے ہیں
بہتدور گاؤں ہے میرا
جہاںشام ہوتے ہی تاریکیاں پھیل جاتی ہیں
آٹےکی چکی کی تک تک
پرندوںکی ڈاریں
کہیںدور جاتی ہوئی
گھنٹیوںکی صدائیں
سبھیایک خاموش لے میں بدل کر
سیہرات کی جھیل میں ڈوبتی ہیں
بہتدور گاؤں ہے میرا
جہاںلالٹینوں کی مدھم لرزتی ہوئی روشنی میں
سبقیاد کرتے ہوئے
میںنے اچھے دنوں کے کئی خواب دیکھے
بہتدور گاؤں ہے میرا
جہاںمیری پہلی محبت کی پرچھائیاں ہیں
اداسیمیں ڈوبے ہوئے راستے
کھیت، اسکول، جوہڑ
درختوںکے جھرمٹ
پراسرارتنہائیاں ہیں
بہتدور گاؤں ہے میرا
جہاںچاند راتوں میں خاموش گلیوں سے
بوڑھےدرختوں کی شاخوں سے
سوئےہوئے آنگنوں سے گزر کر
ہوااب بھی آتی ہے
چپکےسے مجھ کو بلاتی ہے
لیکننہ پا کر مجھے لوٹ جاتی ہے
عادتہوا کی ابھی تک وہی ہے
کہفطرت ہوا کی ابھی تک وہی ہے
مگرزندگی نے مجھے روند ڈالا ہے
شہروںکی بے راستہ بھیڑ میں
٭٭٭