مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
تر ہیں سب سر کے لہو سے در و دیوار ہنوز
دل بھی پُر داغِ چمن ہے پر اسے کیا کیجیے
جی سے جاتی ہی نہیں حسرتِ دیدار ہنوز
بد نہ لے جائیو پوچھوں ہوں تجھی سے یہ طبیب
بہِ ہوا کوئی بھی اس درد کا بیمار ہنوز
بارہا چل چکی تلوار تری چال پہ شوخ!
تُو نہیں چھوڑتا اس طرز کی رفتار ہنوز
کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا
ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سرِ خار ہنوز
منتظر قتل کے وعدے کا ہوں اپنے یعنی
جیتا مرنے کو رہا ہے یہ گنہ گار ہنوز
اُڑ گئے خاک ہو کتنے ہی ترے کُوچے سے
باز آتے نہیں پر تیرے ہوادار ہنوز
Re: مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
Umda Intekhab
sharing ka shukariya:)
Re: مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
پسند اور خوب صورت آراء کا بہت بہت شکریہ