کب مصیبت زدہ دل مائلِ آزار نہ تھا
کب مصیبت زدہ دل مائلِ آزار نہ تھا
کون سے درد و ستم کا یہ طرف دار نہ تھا
آدمِ خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئنہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھا
دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں
تیرے کوچے میں مگر سایۂ دیوار نہ تھا
صد گلستاں تہِ یک بال تھے اُس کے جب تک
طائرِ جاں قفسِ تن کا گرفتار نہ تھا
حیف سمجھا ہی نہ وہ قاتلِ ناداں ورنہ
بے گنہ مارنے قابل یہ گنہ گار نہ تھا
عشق کا جذب ہوا باعثِ سودا ورنہ
یوسفِمصرزلیخا کا خریدار نہ تھا
نرم تر موم سے بھی ہم کو کوئی دیتی قضا
سنگ چھاتی کا تو یہ دل ہمیں درکار نہ تھا
رات حیران ہوں کچھ چپ ہی مجھے لگ گئی میرؔ
درد پنہاں تھے بہت پر لبِ اظہار نہ تھا
Re: کب مصیبت زدہ دل مائلِ آزار نہ تھا
Umda Intekhab
sharing ka shukariya:)
Re: کب مصیبت زدہ دل مائلِ آزار نہ تھا
پسند اور خوب صورت آراء کا بہت بہت شکریہ