ابتداء سورت میں زکریا علیہ السلام کی اولاد کے حصول کے لئے رقت انگیز دعا اور ان کے لئے بیٹے کی بشارت اور پھر یحییٰ علیہ السلام جیسے نابغۂ روزگار بیٹے کی ولادت کی اطلاع ہے۔ اس کے بعد مریم علیہا السلام کے ہاں عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ایمان افروز تذکرہ ہے کہ وہ غسل کے لئے تیاری کررہی تھیں کہ ایک شخص ان کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا، وہ اسے انسان سمجھ کر اللہ کی پناہ مانگنے لگیں مگر اس نے بتایا کہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے اور اللہ کے حکم سے بیٹے کی بشارت دینے آیا ہے۔ انہیں تعجب ہوا کہ شوہر کے بغیر کیسے بیٹا پیدا ہوگا۔ انہیں بتایا گیا کہ اللہ کے لئے یہ بات کوئی مشکل نہیں ہے۔ چنانچہ وہ امید سے ہوگئیں اور جب ولادت کا درد شروع ہوا تو پریشان ہوکر کہنے لگیں کہ کاش تکلیف اور رسوائی کا یہ وقت آنے سے پہلے ہی وہ انتقال کرچکی ہوتیں۔ وہ اس وقت ویرانے میں کھجور کے ایک خشک تنے کے سہارے بیٹھی ہوئی تھیں۔ فرشتے نے ندا دی کہ آپ کے نچلی جانب نہر جاری ہے۔ کھجور کو جھنجوڑ کر پھل حاصل کریں اور نہر سے پانی پئیں اور بچہ کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کریں اور اگر کوئی پوچھے تو بتادیں کہ میں نے ’’چُپ‘‘ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس بچہ سے پوچھ لو۔ جب وہ بچہ کو گود میں لئے ہوئے بستی میں پہنچیں تو لوگوںنے اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ تمہارے والد صاحب ایک صالح انسان تھے تمہاری والدہ نیک خاتون تھیں پھر تم نے اتنا بڑا حادثہ کیسے کردیا؟ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ اور بابرکت رسول بنایا گیا ہوں۔ مجھے نماز اور زکوٰۃ کے اہتمام کی تعلیم دے کر بھیجا گیا ہے۔ میں صلاح و تقویٰ کا پیکر اور والدہ کا فرماں بردار ہوں۔ بچہ کی اس گفتگو نے مریم کو پاک باز بھی ثابت کردیا اور اللہ کی قدرت کو ثابت کرکے لوگوںکے تعجب میں بھی اضافہ کردیا۔ یہ تھے مریم کے بیٹے عیسیٰ۔ یہ اللہ کے بیٹے نہیں بلکہ اللہ کے حکم ’’کن فیکون‘‘ کے کرشمہ کے طور پر ظاہر ہوئے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی صداقت و نبوت کے اعلان کے ساتھ ان کا مکالمۂ توحید مذکور ہے جو انہوںنے اپنے والد سے کیا اور اس میں کفر کی بداخلاقی اور نبی کے اخلاق کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے۔ پھر موسیٰ و ہارون کی نبوت اور کوہِ طور پر اللہ سے ہمکلامی کا تذکرہ پھر اسماعیل علیہ السلام کی نبوت و رسالت اور وعدہ کی پاسداری اور نماز اور زکوٰۃ کے اہتمام کا ذکر۔پھر ادریس کی صداقتِ نبوت کا ذکر، پھر اس بات کا بیان کہ تمام انبیاء علیہم السلام ایک ہی انعام یافتہ سلسلہ کی کڑیاں ہیں اور اس سلسلہ کے بانی آدم و نوح و ابراہیم علیہم السلام ہیں۔ یہ لوگ ہمارے منتخب اور ہدایت یافتہ افراد کے سرخیل تھے۔ بعد میں لوگ خواہشات کے پیچھے چل کر ان کے برگزیدہ افراد کے نقش قدم سے ہٹ گئے اور نماز کے ضائع کرنے والے بن کر جہنم کی خطرناک وادی ’’غیّ‘‘ کے مستحق بن گئے، لیکن توبہ کرکے ایمان و اعمال صالحہ کی پابندی کرنے والے ظلم سے محفوظ ہوکر جنت کے حقدار ٹھہرے۔ پھر انسان کی مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے قیامت کے منکرین کو کھری کھری سنائی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ یہ ایسا بدترین عقیدہ ہے کہ اس کی نحوست سے آسمان گرجانے چاہئیں اور زمین پھٹ جانی چاہئے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجانے چاہئیں۔ اللہ کی اولاد نہیں سب اللہ کے بندے اور مملوک ہیں۔