کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں
کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی چلیں
یہ کہہ کے چھیٹرتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
Re: کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں
Thanks for sharing Keep it up ..
Re: کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں
Umda intekhab
Thanks for sharing@};-
Re: کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں