مجھے بھی مژدۂ کیفیت دوامی دےمرے خدا! مجھے اعزازِ نا تمامی دےمیں تیرے چشمۂ رحمت سے شاد کام تو ہوںکبھی کبھی مجھے احساسِ تشنہ کامی دےمجھے کسی بھی معزز کا ہمرکاب نہ کرمیں خود کماؤں جسے، بس وہ نیک نامی دےوہ لوگ جو کئی صدیوں سے ہیں نشیب نشیںبلند ہوں، تو مجھے بھی بلند بامی دےتری زمین یہ تیرے چمن رہیں آبادجو دشتِ دل ہے، اسے بھی تو لالہ فامی دےبڑا سرور سہی تجھ سے ہمکلامی میںبس ایک بار مگر ذوقِ خود کلامی دےمیں دوستوں کی طرح خاک اڑا نہیں سکتامیں گردِ راہ سہی، مجھ کو نرم گامی دےاگر گروں تو کچھ اس طرح سربلند گروںکہ مارکر، مرا دشمن مجھے سلامی دے(’’دوام‘‘) مارچ1976***