خوش پوش مسافروں کے آگےننّھا سا وہ کم لباس بچہکِس شانِ انا سے چل رہا تھا
سُورج کی تمازت کے با وصفسائے کی تلاش تھی نہ اس کودرکار تھیں نقرئی پناہیںجیبوں پہ نگاہ تھی نہ رُخ پرسکّوں سے وہ بے نیاز آنکھیںکُچھ اور ہی ڈھونڈنے چلی تھیںاُس کو تو مسافروں سے بڑھ کرسایوں سے لگاؤں ہو گیا تھااپنے نئے کھیل میں مگن وہلوگوں کے بہت قریب جا کرمیلی ، بے رنگ اُنگلیوں سےسایوں کو مزے سے گن رہا تھادلدل سے اُگا ہُوا وہ بچہخوشبو کا حساب کر رہا تھاکُہرے میں پلا ہُوا وہ کیڑاکرنوں کا شمار کر رہا تھاکس نے اُسے گنتیاں سکھائیںجس نے کبھی زندگی میں اپنیاسکول کی شکل تک نہ دیکھیاُستاد کا نام تک نہ جاناسچ یہ ہے کہ سورجوں کو چاہےبادل کا کفن بھی دے کے رکھیںکب روشنیاں ہوئی ہیں زنجیر!تنویر کا ہاتھ کِس نے تھاما!کونوں کے قدم کہاں رُکے ہیں !