وہ پتھر پہ کھِلتے ہُوئے خُوبصورت بنفشے کا ننھا سا ایک پھُول بھیجس کی سانسوں میں جنگل کی وحشی ہوائیں سمائی ہُوئی تھیںاُس کے بے ساختہ حُسن کو دیکھ کراک مُسافر بڑے پیار سے توڑ کر،اپنے گھر لے گیااور پھراپنے دیوان خانے میں رکھے ہُوئے کانچ کے خُوبصورت سے گُل دان میںاُس کو ایسے سجایاکہ ہر آنے والے کی پہلی نظر اُس پہ پڑنے لگیدادوتحسین کی بارش میں وہ بھیگتا ہی گیاکوئی اُس سے کہےگولڈ لیف اور شنبیل کی نرم شہری مہک سےبنفشے کے ننھے شگوفے کا دَم گھُٹ رہا ہےوہ جنگل کی تازہ ہَوا کو ترسنے لگا ہے