رنگ برنگی دنیا رنگ برنگی سوچ- حصہ دوئم
http://paradigmmalibu.com/wp-content...-depressed.jpg
کچھ سال پہلے انسان کی دن بدن بدلتی سوچ اور حالات کے ساتھ انسان کے بدلتے رویوں کو بیان کرنے کے لئے میں نے ایک تحریر پیش کی تھی. آج میں اس تحریر کا اگلا حصہ پیش کرنے جا رہی ہوں. اس تحریر کو سمجھنے کے لئے . آپ کو شاید پچھلے حصے کو پڑھنے کی ضرورت ہو اس مقصد کے لئے آپ اس لنک کو وزٹ کر سکتے ہیں
http://www.urdutehzeb.com/showthread...B3%D9%88%DA%86
آج صبح سے ہی میں پریشان تھی. رات کی اپنی کہی ہوئی باتیں میرے ذہن میں بے چینی ، وسوسے اور خوف پیدا کر رہی تھیں.اور اس ہی الجھن کا شکار میں ابھی صبح تک ہوں . میرے سر پر بوجھ ہے، اور کنپٹیاں بھاری ہو چکی ہیں رت جاگے اور سوچ کی شدت سے . کیوں کے مسلسل اپنی تمام عمر میں نے اپنے منہ سے ادا کیے ہوۓ الفاظ اور پھر انکے نتیجے میں ہونے والے عوامل پر دھیان ہی بہت دیا . حالانکہ میں جانتی تھی . کہ اپنی حقیقت کو جانتے ہوۓ بھی ، اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنا مجھے مہنگا پڑ سکتا ہے ، اور میرے اپنے الفاظ لوگوں کو میرے لئے کھلے بیانات دینے پر اکسا سکتے ہیں . مگر جینے اور آگے بڑھنے کی خواہشات انسان کو نفس کا پجاری بنا دیتی ہیں . میں بھی شاید نفس کی پجاری ہو گئی تھی، یا پھر ہارے ہوئے انسان کی طرح زندگی کی بازی جیت جانے کے لئے میں خود کو
کھوکھلا سہارا دینے کی کوشسش کر رہی تھی.
آج میں اسی کشمکش میں تھی کہ اپنے شوہر سے الگ گھر کی خواہش کر کے میں نے انکو الجھا بھی دیا. ناراض بھی کر دیا اور خود بھی سو طرح کے وسوسوں کا شکار ہو گئی کہ میری ان باتوں کا کیا نتیجہ نکلے گا. آج تو دیکھنے کو مجھے چالاکو ماسی اور اسکے بچے بھی مل جاتے ہیں، جو کہ اس گھر میں رونق کا واحد سہارا ہیں،علیحدگی کے بعد تو میں پھر بھی اکیلی ہی رہونگی . بے شک میرے اور انکے خیالات مختلف صحیح . رہن سہن کے اصول اور زندگی کی خواھشات الگ صحیح. ہمارے آپس کے لا تعداد خاموش اختلافات صحیح. پھر بھی میں نے زندگی کے پندرہ سال دیورانی کے ساتھ گزار دیئے . اور اپنا کوئی مقام نا ہونے کے شکوے .ہی میں مبتلا رہی .میں خالی تھی. خالی ہوں.اس چالاکو ماسی کو ہر روپ میں اپنا مقام مل گیا. مگر میں مقام کی متلاشی ہی رہی . چاہے صحیح سوچا چاہے غلط سوچا. پر میں مسلسل اپنے خیالات کے نتیجے میں بدل رہی ہوں.
آج وہ وقت ہے ، جب نا میرے بایئں کمرے سے کوئی آواز آتی ہے، نا ہی کسی کے میسنے پن کا کوئی نقصان مجھے ہو رہا ہے، وہ رشتے ہی نہیں رہے تھے، کہ جن میں مجھے مقام کی خواہش ہو . میں سکون کے عالم میں پھر بھی نہیں تھی.
مجھے کبھی بھی اپنے شوہر کو دکھ دینا اچھا نہیں لگا. مگر مقام کے لئے انسان نا جانے کیا کیا کر جاتا ہے . میرے ذہن میں وہ ہی الفاظ گونج رہے تھے کہ میں آج سے اٹھارہ سال پہلے کا تھی. اور آج اٹھارہ سال بعد کیا ہوں . دنیا داری اور دنیا والوں کو اپنا سمجھنے والی، سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کو ترجیح دینے والی ، لوگوں کو مل جل کے تلقین کرنے والی . آج خود ایسے دوراہے پر کھڑی تھی کہ اپنا الگ مقام چاہتی تھی .
زندگی میں اتنی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں کہ جب میرے سسر کا انتقال ہوا تو ایسا لگا کہ. اب اپنے شوہر کا اکیلا پن کبھی بھی بانٹ نہیں پاؤں گی میں. اس گھر میں انکے دل لگانے کے لئے اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ایک وہ ہی سہارا تھا. جو اب نہیں رہا تھا. مجھے لاکھ اختلافات ہوتے. پر ایک بیٹے کو اپنے باپ سے بڑا سہارا اور آسرا ہوتا ہے، سو میرے شوہر کو بھی تھا. اب مجھے لگا تھا کہ شاید زندگی میں بڑی تبدیلیاں آیئں گی . شاید مجھے میرا وہ مقام مل جائے کہ جسکی میں حقدار تھی. یا شاید یہ مقام ہر عورت حاصل کرنا چاہتی ہے چاہے حقدار ہو کہ نہیں ہو. میرے میں دنیا بھر کی لا تعداد اچھی خصوصیات تھیں . بس زندگی کی ایک کمی نے مجھے بے رونق اور ہوتے ہوۓ بھی کچھ نا ہونے کے احساس میں مبتلا کر رکھا تھا. مجھے بھی ایک بیوی ہونے کے ناتے اپنا گھر بنانا تھا. اپنے آپ کی مرضی کی زندگی گزارنی تھی . وہ تمام خواہشات جو ایک عورت کی ہوتی ہیں، اپنا کچن ، اپنا گھر ، اپنی آزادی، اپنے مہمان ، اپنی مرضی کی مہمان نوازی . خود مختاری . مگر آج اٹھارہ سال گزر جانے کے بعد میں مجھے یہ سب حاصل نہیں ہوا تھا. شادی کے پہلے دن میں جس مقام پر کھڑی تھی. آج بھی اس مقام پر ہی ہوں .
کبھی کبھی لگتا ہے میری زندگی بہت خوبصورت ہے، نہ کوئی ذمداری ہے، نا احساس زمیداری ، پر اکثر یہ خیال دل کو ایک دم مردہ کر دیتا ہے کہ میں دنیا میں بے مقصد ہوں. نا جانے احساس ذمداری کے نا ہونے کے احساس کو محسوس کر کے میں خود کو جھوٹا بہلاوا دیتی تھی. یا اپنی زندگی بے مقصد سمجھ کر میں دین اور دنیا سے فرار اختیار کرتی تھی. خیر میں جانتی تھی کہ شاید جس دن سے میں نے ہوش سمبھالا تھا. میں اپنے آپ میں ، اپنی خیالات میں الجھی ہوئی ہی رہی. وہ لوگ جنہیں میں اپنے بہت قریب سمجھتی ہوں. وہ ہی لوگ اکثر مجھے یہ کہ کر مایوس کر دیتے ہیں کہ تم حقیقی دنیا سے دور ہو، دنیا کی حقیقت یہ نہیں ہے . یا کبھی میں خود کو یہ احساس دلا کر سکون دے لیتی ہوں ، کہ میرے دل کی کیفیت سے یہ لوگ واقف نہیں . تبھی دنیا کی حقیقت کا احساس مجھے دلاتے ہیں.
رات بھی میرے شوہر سے میرا شکوہ اپنے الگ مقام کا ہی تھا. کہ کب تک مجھے اس طرح لوگوں کو محتاج بنا کے رکھیںگے. کب تک گھر چلانے کے لئے میں لوگوں کے کام کی محتاج رہونگی. کیا ہماری زندگی کبھی آگے نہیں بڑھے گی. اور ہمیشہ کی طرح میرے شوہر کا ایک ہی جواب تھا. کہ یہ بتاؤ . الگ اور بڑا گھر لے کر ہم کیا کرینگے. دس کمروں کا مکان ہو ، پر اس خالی مکان کا ہم کیا کرینگے. میں جانتی تھی. انکی یہ بات غلط بھی نا تھی . کہ وہ مکان کبھی گھر بنتا ہے نہیں ، جس مکان میں مکین نا ہوں . پر بے اولادی میری اپنی مرضی سے نہیں تھی. میں نے اپنے شوہر کے بھائی بھابیوں، انکے بچوں سے اپنے شوہر کے والدین سے. سب سے بہترین تعلقات رکھے. بہترین نبھایا. یہاں تک کے بستر پر سالوں گزارنے والے میرے ساس سسر کی سالوں خدمات بھی کی. وہ بھی بوجھ سمجھ کر نہیں. الله پاک کی رضا کے لئے. اور جب ان زمداریوں سے سبکدوش ہوئی تو الله پاک سے الله پاک کی رضا مانگی. دل میں سکوں محسوس کیا. کے میں اپنے لئے سوچتی رہی کے میں بدل رہی ہوں. کہیں میں پوری کی پوری بدل نا جاؤں . پھر بھی میں بدلی نہیں. میرے دل میں جو احساس تھا دوسروں کے کام آنے کا. وہ احساس میرے دل میں مرا نہیں .
مگر میرے ذہن میں پھر بھی انتشار رہا ، کہ اب مجھے میرا مقام بھی ملے گا. کیا سب کچھ ہوتے ہوۓ. میری ملکیت کچھ بھی نہیں ؟ اولاد نہیں ہے، تو کیا دنیا داری کا حق بھی جاتا رہا مجھ سے ؟ چالاکو ماسی بھی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزار گئی. یہاں تک کے زندگی موت کو قریب سے دیکھا اس نے. اور میں کبھی یہ اندازہ بھی نا کر پائی کہ میں جسکو چالاکو ماسی کہتی ہوں. میں اسکی زندگی اور موت کی کشمکش دیکھ کر رویا بھی کرونگی. اسکے لئے اپنی ہمت سے زیادہ بہت کچھ کر گزرونگی . خیر یہ ضرورت کی بات ہے. انسان کو انسان کی ضرورت رہتی ہے. اسکی ضرورت میں الله پاک کی رضا سے میں نے اسکا ساتھ دیا. اسکی معزور بچی، اور باقی بچوں کو اور دیور دیورانی کو بھی دیورانی کی بیماری میں سمبھالا .
مگر اس مقام پر آتے آتے . میرا دیور اور دیورانی میرا سارا گھر اپنا بنا چکے تھے. گھر کا خرچہ پانی میرے ساس سسر کے جانے کے بعد بھی آج تک میرے شوہر نے میرے ہاتھ میں نا دیا تھا. اب بھی خرچہ پانی چالاکو ماسی اور اسکے شوہر کے ہاتھ تھا. اب تو چالاکو ماسی صحت یاب ہو چکی تھی . اور مجھے لگنے لگا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اپنا کام نکلوانے کے بعد وہ پھر سے تازہ دم ہو گئی ہے، پھر سے وہ ہی مقابلے کا دور شروع ہو گیا ہے، وہ پھر سے سب سے آگے نکل جانا چاہتی ہے، وہ پھر سے مجھے میرے اکیلے ہونے کا احساس دلا رہی ہے، کتنی جلدی لوگ بدل جاتے ہیں، اپنی ضرورت پر کام لینے کے بعد نا انکو ضرورت پوری کرنے والا یاد رہتا ہے، نہ یہ یاد رہتا ہے کہ یہ تو زندگی ہے، اور زندگی میں اونچ نیچ ، صحت بیماری، زندگی موت لگی رہتی ہے .
مگر جب اپنے آپ سے چالاکو ماسی کا موازنہ کرتی تو خود کو بھی اس سے کم نا پاتی . کیوں کے کبھی یہ سوچتی کہ. مجھے بھی تو کبھی کسی کی ضرورت پڑ سکتی ہے. پھر یہ سوچتی کہ جو آج میرا نہیں ہے، وہ کل میرا اور میری ضورت کے وقت پر میرا کیسے ہوگا. بس یہ سوچ کر دل کو سکوں دیتی رہتی . الغرض میں مسلسل اپنا اور اپنے حالات کا موازنہ لوگوں کے ساتھ کرتی رہتی . اور مجھے مسلسل یہ خیال گھیرے رکھتا کے میں بدل رہی ہوں.
میری بات بھی کہاں سے کہاں نکل گئی بات یہ ہو رہی تھی کہ . جیسی میں آج سے اٹھارہ سال پہلے تھی. اسکے پانچ سال بعد ویسی نہیں رہی تھی. اور پھر ان پانچ سالوں کے بعد آنے والے سالوں یہاں تک کے مکمل اٹھارہ سال بعد میں یکسر بدل چکی تھی . حالات بھی بدل گئے تھے. اس گھر کے بزرگ دنیا سے جا چکے تھے. اس گھر کے بچے بڑے ہو گئے تھے. پر میں نے جس کمرے میں اپنی زندگی شروع کی تھی. میری زندگی کا شروع اور اٹھارہ سال بعد کی زندگی اس ہی کمرے تک محدود تھی. میری زندگی میں کچھ تبدیلی نہیں آئی تھی. مگر میری سوچ اور دنیا داری لگاتار بدل رہی تھی.
میری الگ پہچان کی خواہش آج تک ادھوری ہے. آپ کو کیا لگتا ہے. کیا یہ ادھوری خواہش کبھی پوری ہوگی. یا میں مسلسل بدلتی رہونگی اپنے خیالات کو . یہاں تک کے خود کو مکمل گنہگار بنا لونگی . غیبت کرنے والی، منہ پہ کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ . بظاھر خوش . مگر اندر سے مایوس . رنگ برنگی دنیا کے ساتھ میری سوچ بھی رنگ برنگی رہے گی ؟
Re: رنگ برنگی دنیا رنگ برنگی سوچ- حصہ دوئم
گزشتہ سے پیوستہ
بہت خوب صورت تحریر
سلسلہ جاری رکھیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Re: رنگ برنگی دنیا رنگ برنگی سوچ- حصہ دوئم
last writing b yad hai apki. and this one also great. keep writing.