بوڑھی سوچیں ملیں مجھ کو عزمِ جواں ڈھوندتے
بوڑھی سوچیں ملیں مجھ کو عزمِ جواں ڈھوندتے ڈھونڈتے
سر لئے پھر رہا ہوں میں سنگِ گراں ڈھوندتے ڈھونڈتے
کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھوندتے ڈھونڈتے
میرے جذبوں کے بازو بھی لگتا ہے، جیسے کہ، شل ہو گئے
سرد لاشوں میں ٹھٹھری ہوئی بجلیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے
اپنا گھر ہی نہ تھا، تھک گئیں آندھیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
لو، کسی کوئے بے نام میں جا کے وہ بے خبر کھو گیا
روزناموں میں چھپتی ہوئی سرخیاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
آدمی کیا ہے، یہ جان لینا تو آسی بڑی بات ہے
سوچ پتھرا گئی رشتۂ جسم و جاں ڈھوندتے ڈھونڈتے
***
یعقوب آسی