کافی ہے یہی، دل کو سزا اور نہ دینا
رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دیناپہلے ہی قفس میں ترے احسان بہت ہیںگھاؤ کوئی، اے موجِ صبا! اور نہ دیناکیا درد بٹاؤ گے کہ جس سِحر میں ہم ہیںپتھر ہی نہ ہو جائیں صدا اور نہ دیناصنّاع کہیں خود نہ کھنچا آئے زمیں پراِس چاند سے چہرے کو جِلا اور نہ دیناحاصل ہے جو تجھ سے ہمیں پھولوں کی مہک سیاُس قرب کی مہلت کو گھٹا اور نہ دیناہے اِس کی شرافت ہی خسارے کو کہاں کمماجد کو بزرگی کی رِدا اور نہ دینا٭٭٭