-
شادی
http://dunya.com.pk/news/special_fea...dGccBQio7J.jpg
ہمارے معاشی مسائل کا ایک اہم سبب بڑھتی ہوئی آبادی ہے اور اس آبادی کی وجہ صرف اور صرف شادی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت حکمہ منصوبہ بندی بنا کرنا حق، بندوں اور بندیوں سے ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ یا کم بچے خوشحال گھرانا کے پیغام پر عمل پیرا ہونے کی توقع رکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ والدین ان نعروں کا اثر لیں گے اور اس طرح آبادی کا سیلاب رک جائے گا لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ کے نعرے کا والدین نے کچھ اور ہی مطلب نکالا اور سمجھے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش ہی اچھی ہے۔ اسی طرح ’’کم بچے خوش حال گھرانا‘‘ کے معنی بھی کچھ سے کچھ ہو گئے ہیں۔ مثلاً ہمارے دوست ’’تفہیم الدین فہیم‘‘ العمروف ٹی یوفہیم ( جن کے نا م کا مخفف بعض بے تکلف دوستوں نے ’’تف‘‘ کر لیا ہے) ایک اشتہار ساز کمپنی سے کاپی رائٹر کے طور پر منسلک ہیں۔ کچھ اپنی افتاد طبع اور کچھ پیشہ ورانہ تقاضوں کے باعث موصوف کی اردو میں انگریزی الفاظ کی ملاوٹ ضرورت سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اردو کے بہت سے عام اور نہایت مستعمل الفاظ کی جگہ انگریزی لفظوں کو یوں جڑتے ہیں کہ اردو پر تو جو گزرتی ہے سو گزرتی ہے، انگریزی الفاظ بھی اپنی ناموزونیت پر شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے ہیں۔ تفہیم صاحب قومی زبان میں انگریزی کے بے جوڑ پیوند لگا کر جو گلابی اردو تخلیق کر رہے ہیں، وہ درحقیقت اردو کے لہو سے سرخ ہو چکی ہے۔ ’’سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے‘‘ پڑھتے وقت وہ اردو کے سفر کا مطلب انگریزی کے Suffer لے لیتے ہیں چنانچہ ’’کم بچے خوش حال گھرانا ‘‘ کے ’’کم‘ ‘ کو انہوں ’’Come‘‘ پر محمول کیا اور بچوں کی فوج کی فوج تیار کر لی۔ کسی نے کثرت اولاد کا سبب پوچھا ’’ تو فرمانے لگے ’’بھئی، آپ نے وہ مشہور مقولہ نہیں سنا Comeبچے خوشحال گھرانا۔ یعنی جس گھر میں جتنے زیادہ بچے آئیں گے، وہ ا تنا ہی خوش حال ہوگا۔‘‘ محمد عثمان جامعی کے کالم بہ عنوان ’’شادی سے اقتباس ٭…٭…٭