احساسِ جمال
بزمِ تنہائی میں روشن ہوئی پھر شمعِ خیال
پھر سے لو دینے لگا مجھ کو کوئی پیکرِ گِل
شاخِ جاں پر بھی لرزتا ہے کوئی قطرۂ غم
عود کے جیسے سلگنے لگا لاچار سا دِل
اندر اک چیز پگھلنے لگی دھیرے دھیرے
جیسے پکتا ہے کڑی دھوپ میں شاخوں پہ ثمر
پھر چٹخ جائے گی، اِس جسم کی خستہ سی چٹان
اور بہہ نکلے گا صحراؤں میں اک چشمۂ تر
ذات کا آئنہ دھندلا ہے مگر روز کہیں
اک ہیولا سا نظر آتا ہے سرِ بابِ ملال
ساحلِ جاں پہ خموشی کے سفینے میں کہیں
اِس قدر دِل سے ہم آغوش ہے احساسِ جمال
اتنا نزدیک ہو کوئی تو پتہ کیسے چلے
ذات سے میری الگ ہو کے کوئی کیسا ہے
٭٭٭