راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضِیا دِل میں اِک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
بے حِس ہیں تمنّائیں نیند آئی کہ موت آئی
اب دِل کو کسی کروَٹ آرام نہیں مِلتا
اِک عُمْر کا رونا ہے دو دِن کی شناسائی
اِک شام وہ آئے تھے، اِک رات فروزاں تھی
وہ شام نہیں لوٹی، وہ رات نہیں آئی
اب وُسعتِ عالَم بھی کم ہے مِری وَحشت کو
کیا مجھ کو ڈرائے گی اِس دشت کی پہنائی
جی میں ہے کہ اُس در سے، اب ہم نہیں اُٹّھیں گے
جس در پہ نہ جانے کی سو بار قسم کھائی
_
Re: راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
Re: راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
Re: راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
Re: راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
Quote:
Originally Posted by
intelligent086
Quote:
Originally Posted by
Rania
Buhat umda
Quote:
Originally Posted by
muzafar ali
wah sain wah boht umda
bht shukeria passand krne ka