http://dunya.com.pk/news/special_fea...bWushFaMfH.jpg
کسی بھی ڈیڈی پر کتاب ماں کے ذکر کے بغیر نہیں لکھی جا سکتی۔ خود ہماری امی کی محبت و شفقت اور خصوصاً سب سے بڑھ کر تربیت میں کلام نہیں اور ہم سب کے اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں امتیازی نمبر لینے کا سہرا دراصل امی کے سر ہے کہ وہ ما قبل اسکول زمانے سے ہی بچوں کو الف، بے ،آسان اردو قاعدہ ،گنتی ، اے ،بی ،سی وغیرہ ازبر اور رواں کروا دیتی تھیں۔ یوں ان کا تربیت شدہ بچہ اسکول میں پہلے دن ہی نمایاں ہو جایا کرتا تھا۔ چونکہ ہماری امی تھانیدار کی بیٹی ہیں اور بے جا محبت کو یوں ہی نچھاور کرنے کے بجائے زیادہ تر نظم و ضبط کے جڑدان میں لپیٹ کر فراہم کرتی ہیں ۔چنانچہ روایتی طور پر ماں سے موسوم شفقت بھی ڈیڈی ہی کو بانٹنا پڑی۔ امی کی محبت اور تربیت کرنے کی درستگی میں کچھ کلام نہیں، مگر یہ موضوع ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور اس وقت صرف ڈیڈی کی بیک وقت پدرانہ و مادرانہ خصوصیات تک محدود رہیں گے(امی سے انتہائی معذرت کے ساتھ) دنیا میں کتنے باپ ہوں گے ،جو گھر کی کفالت اور نگہبانی کے مکمل اور تنہا ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ شام خصوصاً رات کے اوقات میں اپنے چھوٹے بچوں کی نگہداشت بھی اسی تواتر بلکہ حوصلے کے ساتھ کرتے ہوں گے۔ اس میں دیر شب گلسیا (Small Glass)میں بھرا دودھ چمچے سے پلانا اور بچے کو پوتڑوں کے اس بوجھ سے نجات دلانا ،جو فیریکس اور دوسری مائع و نیم ٹھوس غذائوں کا ماحاصل ہوتی تھی اور جس کی موجودگی میں Panteeپُٹلیا لگتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں بچپن میںامی کے جسم سے لپٹنے کے ساتھ ساتھ اکثر اوقات ڈیڈی سے بھی لپٹا رہتا تھا ۔ ماں کے جسم سے تو سب ہی لپٹتے ہیں باپ کے جسم سے لپٹنا اور باپ کے جسم سے حرارت کی بچوں میں منتقلی ہمارے اردگرد کے معاشرے میں اب بھی بہت عام نہیں ہے۔ جب ہم لوگوں نے ایک ایک کر کے پائوں پائوں چلنا سیکھا ،تو ڈیڈی ہمارے بازار لے جانے لگے یہ سفرہمیشہ ہی پیدل ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو ہمیں حیرت ہوتی کہ جو اشیاء نیچے والے بازار میں دستیاب تھیں ڈیڈی انہیں بھی اوپر والے بازار سے خریدتے تھے۔ آئیے میں آپ کو نیچے اور اوپر والے بازار کا فرق سمجھا دوں، ہمارا گھر حیدر آباد کے محلے سرفرازکالونی میں واقع تھا۔ کیونکہ حیدر آباد شہر دو سطحی پہاڑی ڈھلان پر قائم ہے اور یہ کالونی بھی ڈھلوانی گلیوں پر مشتمل ہے اس لیے وہ علاقے جو گلی کے نشیبی سرے سے آگے کی طرف قائم تھے’’نیچے‘‘ کہلاتے تھے، خود ہمارا گھر بیچ ڈھلان پر واقع تھا اور بلندی کی جانب تین گھر اورتھے جو گلی کے دوسری طرف کے سرے کو مین روڈ سے ملاتے تھے۔ چنانچہ اس سڑک سے آگے ملحقہ علاقہ’’اوپر‘‘ کہلاتا تھا ۔ ہمارا گھر یونٹ نمبر1میں تھا جبکہ سرفراز کالونی کے یونٹ نمبر2اور 4نشیب میں تھے اس علاقے کو عرف عام میں ہم لوگ’’نیچے‘‘ کہتے تھے۔ پاکستان کے کسی بھی متوسط شہر کی طرح حیدر آباد بھی مکمل طور پر بازار نما علاقے پر مشتمل ہے ۔چنانچہ خال خال علاقے اور گلیاں ہی کمرشل ہونے کے اعزاز سے محروم ہیں۔ سڑک کی طرف واقع شاید ہی کوئی گھر ہو، جس کی نچلی منزل پر دوکان قائم نہ ہوئی ہو، پورا شہر ہی خیل خلیلی کا منظر پیش کرتا ہے۔ خیل خلیلی جو کہ قاہرہ کا روایتی و تمدنی بازار ہے، جہاں پرانے انداز کی دکانیں اور خوانچہ بردار مقامی طور پر تیار کردہ اشیاء بیچتے اور خریدتے نظر آتے ہیں۔ منظر کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے، جیسا شاہی بازار حیدر آباد سے گزرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے، تاہم دونوں بازاروں میں دو فرق بہرحال نمایاں ہیں، ایک تو شاہی بازار میں غیر ملکی سیاح نظر نہیں آتے، دوم لوبان و عربی عطریات کی جگہ ناس ،تمباکو اور عطر کی تیل نما خوشبو میسر ہوتی ہے۔ البتہ انسانی بھیڑ اورگدھا گاڑیاں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ما زمانہ قبل دونوں شہروں کی کنجیاں تبدیل کی گئی تھیں۔ بات کدھر سے کدھر نکل گئی ڈیڈی جملہ اقسام کی خریداری کے لیے ’’نیچے‘‘ پر ’’اوپر‘‘ کو ترجیح دیتے تھے۔ حالانکہ نیچے کی دکانوں کا فاصلہ گھر سے بمشکل 50گز جبکہ اوپر کا بازار ایک کلو میٹر دور ہو گا۔ بچپن میں خریداری کی ڈیڈی نے ایسی عادل ڈالی کہ چار آنے کے لیموں خریدنے بھی ہم خوشی خوشی ’’اوپر‘‘ دوڑتے ہوئے جاتے۔شاید یہ مشق کروانے سے ڈیڈی کا مقصد ہم سب کے ذہنوں میں نیچے جانے کی بجائے اوپر کی طرف دوڑنے کا شعوری احساس بییدار کرنا ہو گا۔ نیچے سے نفرت دلانے کے لیے ڈیڈی ہمیں اکثر اوقات اپنی بے تکلف رائے سے مستفید کرتے رہتے تھے کہ ڈیڈی کے مطابق نیچے اور اوپر چیزوں کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ طرفہ تماشہ یہ کہ نیچے کی قیمتیں آسمان اور اوپر کی چیزیں زمین سے باتیں کرتی تھیں۔ ڈیڈی کے مطابق نیچے کے دکاندار چور اور بدمعاش تھے جبکہ اوپر والا بازار بحیثیت مجموعی تھوک بازار تھا۔ چنانچہ یقینی طور پر سستا تھا۔ کلی طور پر دیکھا جائے تو نیچے کے دکاندار ڈیڈی کے جملوں کے حملوں کے زیر عتاب رہتے تھے۔ ان معتوب دکانداروں میں سے جو چند ایک مجھے یاد رہ گئے ہیں وہ علائوالدین پرچون والا، ملا پرچون والا جو کہ پنج وقتہ نمازی ہونے کے باوجود چیزوں پر غیر مناسب نفع لیتا تھا ۔نصیر کنجڑا جو سبزیوں پر پانی ڈال کروزن بڑھا کر بیچتا تھا، قمر وکنجڑا گو کہ وہ خود اور اس کی ماں ڈیڈی کو بڑے احترام سے ’’بابو جی السلام علیکم‘‘ کہتے تھے، وہ بھی پاسنگ مارکس حاصل نہیں کر سکا۔نبّو دودھ والا چھوٹا اوربڑا گوشت بیچنے والے جملہ قصاب بشمول بھولو ماسوائے بشیرے اور پہلوان فرزند بشیرا کے یہ سب کبھی بھی ڈیڈی کے مطلوبہ تجارتی انڈیکس تک نہیں پہنچے تھے ۔اس کے مقابلے میں ڈیڈی کا پلڑا ہمیشہ حکیم صاحب پنسار، پھل بیچنے والی بڑھیوں اور دیگر سبزی فروش جو کہ گھنٹہ گھر سے ملحق بازار میں چیزیں فروخت کیا کرتے تھے، ان ہی کے حق میں جھکتا تھا۔ عدل و انصاف کا معیار ڈیڈی نے جو بھی رکھا ہو، یہ رائے حتمی اور غیر متزلزل تھی، تاہم باشندگان علاقہ زیریں میں قمر صاحب جودھپوری راشن ڈیو والے مبرّا تھے اور ڈیڈی انہیں محترم رکھتے تھے ۔ لالہ ہوٹل والا بھی جیسے تیسے پاسنگ مارکس حاصل کر ہی لیا کرتا تھا۔ میں بات کر رہا تھا کہ جب ہم ساتوں بہن بھائیوں نے ایک ایک کر کے پائوں پائوں چلنا سیکھا ،تو جہاں اسکول کی کلاس میں پڑھائے جانے والے درجہ بدرجہ مراحل طے کئے ،وہیں ڈیڈی ہمیں کبھی کبھار طبیعتاً بلکہ تربیتاً گھنٹہ گھر کے عین قریب واقع ریواڑی حلوائی کی دوکان سے حلوہ پوری اور جلیبی کھلانے یا شاہی بازار میں قائم فقیر کے پڑوالی گی کی نکڑ پر واقع نہاری والے سے نہاری اور نان کھلانے لے جایا کرتے تھے۔ تربیت کے یہ درجے کبھی کبھار کراچی کے دورے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور، مری پنڈی یا کوئٹہ کی تفریح کی صورت میں جاری و ساری بھی رہے اور حسب مراتب سری پائے ، بریانی ، حلیم ،پان اور لسی وغیرہ تک تجاوز کر جاتے، کوئی چائینز ہوٹل، کافی یا آئس کریم پارلر ڈیڈی کی ڈکشنری میں شامل تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ ابھی برگر کو بن کباب اور پیزا کو قیمے والا نان ہی کہا جاتا تھا۔ کبھی کبھار البتہ ڈیڈی ’’آئسکریم کون‘‘ سے مستفید کرا دیتے تھے یہ’’کون‘‘ زیادہ تر شاہی بازار کی چھوٹکی گٹی سے دلوائی جاتی تھی۔ جو عاصم کا کچھ زیادہ ہی من پسند’’کھاجا‘‘ تھی۔ سرے گھاٹ کے چوک پر پلائو والا اپنی دیگ کسی دوسرے کی دکان کے پائیدان پر رکھ کر بیچتا تھا، جو ہالینڈ کی طرح سطح سڑک سے نیچے اور اطراف کے رواں پانی سے بھی نشیب میں واقع تھی ،لیکن بھئی واہ واہ کیا ذائقہ تھا ڈیڈی ایک متناسب مقدار پلائو تلواتے تھے جو کہ کافی ہو جاتا تھا۔ وہیں قریب ہی ایک دوکان میں’’ملک روز‘‘ شربت بھی ملتا تھا جو کہ نہ صرف ڈیڈی کو بہت پسند تھا بلکہ اس شربت کا ذائقہ میں آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ قلعے کی دیوار کے قریب توپ چوک پر ایک شخص’’دل تکے‘‘ بیچتا تھا ڈیڈی نے وہ بھی متعارف کروائے۔ زمانے کے گرم و سرد سے آگاہی کے طور پر سرے گھاٹ،گھنٹہ گھر اوربشیرے کے یہاں ملنے والی وہ لحمیاتی جنس جو عربوں میں عمومی مقبول ہے اس کو بھی Discourageنہیں کیا۔ سویٹ ڈش کے طور پر چھوٹکی گٹی کی بالو شاہی جن کو ڈیڈی خُر ما پکارا کرتے تھے ان کا من پسند کھاجا تھا۔ ایک دفعہ بہت شروع شروع میں ڈیڈی نے بچوں کو ونیلا کسٹرڈ’’انٹرڈیوس‘‘ کروایا پھر یہ کسٹرڈ اور جیلی عاصم صاحب کی ’’بے بی‘‘ بن گیا کیونکہ جتنی کوششیں عاصم نے ونیلا کسٹرڈ بنانے میں صرف کیں تھیں شاید اتنی کوششوں سے کشمیر کیا پورا ہندوستان بھی فتح ہو جاتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ عاصم جیلی جمانے میں کامیاب رہتے تھے۔ مجھے امید واثق ہے کہ اپنے جرمنی اور امریکہ میں قیام کے دوران میں عاصم اب تک کسٹرڈ جمانے میں مشاقی حاصل کر چکے ہوں گے۔ ڈیڈی کی جملہ آمدنی کا دارومدار چونکہ مکمل اور کلی طور پر تنخواہ پر تھا شاید اسی وجہ سے ابدا میں ہمیں وقتی طور پر شکایت رہی کہ ڈیڈی روپوں کی قلت کے ساتھ ہمیں کیوں تفریح پر بیرون شہر لے جاتے ہیں ،مگر آج میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میری رائے میں تبدیلی آ گئی ہے اور اب شکایت کی بجائے حیران ہوتا ہوں کہ اتنی قلیل آمدنی کے باوجود ڈیڈی ہمیں کس طرح اتنے حیرت انگیز دورے کروایا کرتے تھے۔ مقابلتاًپڑوس میں رہنے والے ان تمام مارواڑی سیٹھوں کی اولاد جو معاشی طور پر ہم سے یقیناً مستحکم تھے وہ بمع اولاد تفریحاً شاید کبھی کوٹری یا ہٹڑی بھی نہ گئی ہو گی۔ (کتاب ’’ ڈیڈی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭