تبدیلی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے
یہ ایک مشہور جرمن فلاسفر کے ساتھ پیش آنے والا سچا واقعہ ہے جو اپنے ہمسائے کے مرغے کے شور و غل سے بہت تنگ تھا۔ جب بھی یہ مرغا شور مچاتا اس کی ساری سوچیں درہم برہم ہو کر رہ جاتیں اور اس کے تحقیقی کاموں میں خلل پڑتا۔ ایک دن جب اس فلسفی کا اس شور و غل سے جینا تک محال ہو گیا تو اس نے اپنے ملازم کو کچھ پیسے دیکر بھیجا کہ جا کر ہمسائے سے یہ مرغا ہی خری
د لے اور اسے ذبح کرکے پکائے تاکہ وہ ناصرف کہ اس ساری کوفت کا بدلہ مرغے کے لذیذ گوشت کو کھا کر لے سکے بلکہ مرغے کے شور و غل سے بھی نجات پا سکے۔
اُس دوپہر کو اس فلسفی نے اپنے ایک عزیز دوست کو بھی اپنے گھر دعوت پر بلا لیا تاکہ دونوں مل کر مزیدار کھانا کھائیں۔ دوست کے آنے پر اس فلسفی نے بتانا شروع کیا کس طرح ہمسائے کے مرغے نے اس کا جینا محال کر رکھا تھا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ آج وہ مرغا ہی خرید کر پکا لیا ہے۔ گزرے تو محض چند ہی گھنٹے ہیں مگر وہ بہت ہی سکون اور راحت محسوس کر رہا ہے۔ بلکہ آج صبح سے تو اس نے اپنے تحقیقاتی کاموں پر جس توجہ سے کام کیا ہے وہ توجہ مہینوں سے حاصل نہیں ہو پا رہی تھی، گویا اس نے آج صبح سے کئی مہینوں کے برابر کا کام کیا ہے۔
ابھی فلسفی اور اسکا دوست بیٹھے یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ملازم کھانا اُٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور فلسفی سے بولا، جناب والا، میں بہت معذرت خواہ ہوں کہ میں نے آج صبح ہمسائے سے مرغا خریدنے کی بہت کوشش کی مگر وہ بیچنے پر آمادہ ہی نہیں ہوا، اس لیئے میں نے بازار سے جا کر اور مرغا خریدا اور آپ لوگوں کیلئے پکا یا ہے۔
فلسفی نے حیرت سے اپنے ملازم کی باتیں سنیں اور غور کیا تو واقعی ہمسایوں کا مرغا تو اب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اذانیں دے رہا تھا۔
شیخ طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ اس قصے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: میں نے جب اس فلسفی کے معاملہ پر غور کیا تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ، یہ شخص اس مرغے سے بہت پریشان تھا کیونکہ یہ بہت شور مچاتا تھا، اور پھر یکا یک ہی یہ شخص بہت خوش بھی ہوگیا حالانکہ یہ مرغا تو ابھی تک زندہ تھا اور حالات و واقعات میں کوئی تبدیلی پیش نہیں آئی تھی۔ گویا تبدیلی خود انسان کے اپنے اندر پیدا ہوا کرتی ہے۔ یہ انسان کی اندرونی کیفیت ہی تھی جس نے اس فلسفی کو اس مرغے سے پریشان کر رکھا تھا اور پھر یہی انسانی اندرونی کیفیت ہی تھی جس نے اُسے خوش کر دیا تھا۔ اگر یہ خوشی خود ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہی ہے تو کیوں ہم اسے دوسروں سے مانگتے پھرتے ہیں۔ اور اگر یہ خوشی اتنی ہی قریب ہوتی ہے تو پھر ہم کیوں اسے اپنے آپ سے دور کر رہے ہوتے ہیں؟
ہم مرغے کو صرف اس لیئے ذبح کر ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے شور سے راحت پا سکیں۔ اگر اس مرغے کے ذبح ہونے کے بعد اس کی جگہ ایک سو اور مرغے آ گئے تو پھر ہم کیا کریں گے، کیونکہ یہ دنیا ایک آدھ سے نہیں ایسے کروڑوں مرغوں سے بھری پڑی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہم صرف اسی ایک مرغے کو ہی اپنے دماغ سے اتار پھینکیں کیونکہ ہم زمین پر موجود سارے مرغوں کو تو کرہ ارض سے باہر پھینکنے سے رہے۔ اگر ہم سارے مرغوں کے منہ بند کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو اپنے کانوں کو بند کر لینے کی عادت کیوں نہیں ڈال لیتے؟ ہم اپنے احساسات کو نا پسندیدہ عناصر سے متاثر ہونے سے عاری کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم اپنے گرد ایک غیر مرئی سی دیوار ہی کیوں نہیں کھڑی کر لیتے جو ہمیں ہمارے نا پسندیدہ محسوسات کے ہاتھوں زخم آلود ہونے سے بچاتی رہے؟
Re: تبدیلی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے
السلام علیکم
بہت اچھی شیئرنگ کی ہے۔
--------
اصل مسئلہ ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں،حالات وقت کے ساتھ
بدلتے رہتے ہیں اور پلٹا کھاتے رہتے ہیں، ہم اس تبدیلی کو قبول کرنے سے یکسر انکار کر
دیتے ہیں اور یہ انکار ہمارے اندر بےچینی پیدا کردیتا ہے۔ اور پھر اس بے چینی کے سبب
ہماری زندگی سے سکون نکل جاتا ہے۔
حالات کو قبول کر لینے میں ہی انسان کی عافیت ہوتی ہے اور انسان اُسی وقت مقابلہ بھی
کر سکتا ہے جب وہ ذہنی طور پر طاقتور ہوتا ہے۔ اور طاقت کے حصول کا یہی طریقہ ہے کہ
بدترین سے بدترین کو قبول کر لیا جائے نا کہٰ اُس کے ساتھ زور آزمائی کی جائے۔
Re: تبدیلی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے
zabardastyah sach hai kahtabdili to insan ke andar ati hai.bai'gham andar bolti hai to bolti rahe, doo kan kis liay hotay hain.ghar main izzat bachanay walay sara din bai'izzti karwatay hain.bai'gham ki awaz se murghay ki awaz karakht nahain ho sakti.yah paki pidi baat hai.yah san khush'tabi main likh gya hoon.sachi baat hai bohat hi achi sharing hai.Allah aap ko asanioon main rakhe
Re: تبدیلی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے
Re: تبدیلی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے
Quote:
Originally Posted by
Roomi
السلام علیکم
بہت اچھی شیئرنگ کی ہے۔
--------
اصل مسئلہ ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں،حالات وقت کے ساتھ
بدلتے رہتے ہیں اور پلٹا کھاتے رہتے ہیں، ہم اس تبدیلی کو قبول کرنے سے یکسر انکار کر
دیتے ہیں اور یہ انکار ہمارے اندر بےچینی پیدا کردیتا ہے۔ اور پھر اس بے چینی کے سبب
ہماری زندگی سے سکون نکل جاتا ہے۔
حالات کو قبول کر لینے میں ہی انسان کی عافیت ہوتی ہے اور انسان اُسی وقت مقابلہ بھی
کر سکتا ہے جب وہ ذہنی طور پر طاقتور ہوتا ہے۔ اور طاقت کے حصول کا یہی طریقہ ہے کہ
بدترین سے بدترین کو قبول کر لیا جائے نا کہٰ اُس کے ساتھ زور آزمائی کی جائے۔
وعلیکم السلام
http://www.mobopk.com/images/hanks4commentsvev.gif
Quote:
Originally Posted by
Dr Maqsood Hasni
zabardastyah sach hai kahtabdili to insan ke andar ati hai.bai'gham andar bolti hai to bolti rahe, doo kan kis liay hotay hain.ghar main izzat bachanay walay sara din bai'izzti karwatay hain.bai'gham ki awaz se murghay ki awaz karakht nahain ho sakti.yah paki pidi baat hai.yah san khush'tabi main likh gya hoon.sachi baat hai bohat hi achi sharing hai.Allah aap ko asanioon main rakhe
Quote:
Originally Posted by
Rania
Thanks for Great sharing
http://www.mobopk.com/images/hanks4commentsvev.gif