در قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
در قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر کہ اسیروں پہ کیا گزرتی ہے
تعلق کبھی اس قدر نہ ٹوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغوں کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ہے
یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے ، احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کہ موجِ بلا گزرتی ہے
نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
درِ قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے
Re: در قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
Re: در قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
Buhat umda
Thanks for sharing
Re: در قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے