ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
اُس کی خواہش ہے تو یہ بات بُھلا دی جائے
رات سر پر ہے، کٹھن راستہ، مسافر تم کو
لوٹ آنے کی، یا منزل کی دُعا دی جائے
خُود وہ آئے گا سرِ بام، جو آنا ہو گا
اُس کے دروازے پہ دستک، نہ صدا دی جائے
اتنے جھنجھٹ ہیں کہ مِلتی نہیں اب تو فُرصت
رسمِ دلجوئی، ہو جیسے بھی، اُٹھا دی جائے
ایک ہی طرح دھڑکتا ہے، خزاں ہو کہ بہار
دل کو اِس سال کوئی سخت سزا دی جائے
منتخب لوگ ہیں، خلعت سے بلند و بالا
مُستحق لوگوں کو دستار و قبا دی جائے
سحرِ خاموشی کسی طرح تو ٹُوٹے عظمیؔ
اِک صدا نام پہ اپنے ہی لگا دی جائے
اسلام عظمیؔ
Re: ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
بہت ہی عمدہ شئیرنگ کی ہے
مزید اچھی اچھی شئیرنگ کا سلسلہ جاری رکھیں
بہت بہت شکریہ۔
Re: ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
Nice Sharing
Thanks FOr Sharing
Re: ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
Quote:
Originally Posted by
Rania
بہت ہی عمدہ شئیرنگ کی ہے
مزید اچھی اچھی شئیرنگ کا سلسلہ جاری رکھیں
بہت بہت شکریہ۔
Quote:
Originally Posted by
UmerAmer
Nice Sharing
Thanks FOr Sharing
بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔