یہ قصور ہے مری آنکھ کا ترا رنگ ڈھنگ چرا لیا
تجھے اپنے من میں بکھیر کر یونہی مسئلہ سا بنا لیا
یہ محبتوں کا جو کھیل ہے یہ کبھی کسی پہ کھلا نہیں
جسے جانتے ہی نہ تھے کبھی اسے دل میں اپنے سجا لیا
بھلا اس میں تیرا قصور کیا کوئی سوز میرے ہی دل میں تھا
وہ جو آگ میں نے لگائی تھی میں نے خود کو اس میں جلا لیا
.
یہ خیال بھی ہے ہوا صفت کہ جب اپنی موج میں آ گیا
کبھی کوہسار گرا دیئے، کبھی بادلوں کو اٹھا لیا
تجھے کیا بتائیں کہ کس طرح ہمیں مار ڈالا ہے ضبط نے
وہی درد بن گیا لا دوا جسے دل میں ہم نے دبا لیا
سعد اللہ شاہ