نسانی صحت خطرے میںhttp://dunya.com.pk/news/special_fea...0CBSZGqMZV.jpg
رضی خان
بیکٹیر یا طیبی ماہرین سے زیادہ چالاک ہیں ؟ **** خلاؤں کو تسخیر کرتے، سمندر کی پہنائیوں میں تیرتے، ہواؤں پر اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑتے، فطرت سے لڑتے انسان کا سامنا کرنا کسی بھی فطری قوت کے لیے آسان نہیں۔ کوئی میدان انسانوں کی دسترس سے باہر نہیں۔لیکن اگر کہا جائے کہ یہ انسان ایک حقیر سی شے، بیکٹیریا جیسی حقیر شے کے ہاتھوں بے بس ہو رہا ہے تو شاید بہت سوں کے لیے اس کڑوی حقیقت کو تسلیم کرنا مشکل کام ہو گا۔ طب کی دنیا میں ہونے والی دریافتوں میں پینسلین یا اینٹی بائیوٹک کی تقریباً وہی اہمیت ہے جو انسانی ترقی میں پہئے کی ہے، لیکن یہ اینٹی بائیو ٹکس ہی اب ہماری دشمن بنتی جا رہی ہیں۔ انسان کی تیز رفتار ترقی ہی اس کے پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے۔ بیکٹیریا انسانی عقل کو دنگ کر دینے والی سرعت کے ساتھ انسانوں کو شکست پہ شکست دے رہا ہے۔ اینٹی بائیو ٹکس کا توڑ ڈھونڈنے اور اس کو اپنے ارد گرد دوسرے بیکٹیریاؤں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں تک پھیلا دینے میں اس ’’حقیرسی شے‘‘ کا کوئی ثانی نہیں۔ ان میں موجود نظم و ضبط اور ان کی حربی صلاحیتیں انسانوں کے بہترین جرنیلوں سے کم نہیں لگتیں۔ بیکٹیریا نہ صرف درپیش فوری خطرے کے سدباب کے لیے جمع ہو کر اپنے پاس موجود معلومات کو ایک دوسرے سے بانٹتے ہیں بلکہ ایک بار جب وہ اس خطرے کا توڑ ڈھونڈ لیتے ہیں تو اسے اپنی ساری نوع میں پھیلا بھی دیتے ہیں۔ اس سارے سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ یہ بیکٹیریا ایسا کرتے ہوئے اپنی ارتقائی جبلت کو رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔ یعنی انہیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ معلومات کی تقسیم سے وسائل پر ان کا استحقاق کم ہو جائے گا۔حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مزاحمتی معلومات کا حامل بیکٹیریا طبی ماہرین کے لیے ایک نیا دردِ سر بن کر سامنے آ رہا ہے۔بیکٹیریم کی جو قسم ان محققین نے اپنی تحقیق کے لیے استعمال کی، گرام مثبت طفیلیوں کا یہ گچھا staph کہلاتا ہے۔ یہ جراثیم متعدد اقسام کی بیماریوں کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔ اس میں سے بہت سی بیماریاں زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ staphسے لگنے والی اکثر بیماریاں ہسپتالوں سے پھیلتی ہیں۔ میوٹیشن کے ذریعے، staphبہت سے اور جراثیم کی مانند،نئی نوع کو جنم دینے کی بجائے نئی نسل پیدا کرتا ہے۔اس صورت میں اس کے خدوخال بھی نئے بن جاتے ہیں۔ ایسا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میوٹیشن کی وجہ سے ان آرگنزمیں پیدا ہونے والے کیمیکلوں کی قسم اور ان کی مقدار میں تبدیلی آجاتی ہے۔ staph کی کچھ نسلوں میں یہ تبدیلی ایسی قوت پیدا کر دیتی ہے کہ ان پر عام طور پر استعمال کی جانے والی اینٹی بائیو ٹک کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ دہائیوں تک ایک ہی اینٹی بائیوٹک کا نشانہ بنے رہنے والے بیکٹیریا میں یہ مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ تبدیلی کے اس عمل کے دوران بہت سے بیکٹیریا اپنے ڈی این اے میں تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں۔یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسی بیماریاں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انسانوں نے ان پر قابو پا لیا ہے وہ بھی واپس آ سکتی ہیں۔ عام لوگوں کے لیے اس سے بھی بری خبر یہ ہے کہ یہ پہلے سے زیادہ خوف ناک بن کر واپس آئیں گی۔ٹی بی کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ اب یہ قابل علاج بیماری ہے، امریکہ اور دنیا کے دوسرے ممالک میں ٹی بی جس نئے روپ میں واپس آئی ہے اس پر کوئی پرانی دوا اثر نہیں کرتی۔ یہ بیکٹیریا باقاعدہ صف بند انداز میں رہتے ہیں۔ ان کی صفوں میں شامل مختلف بیکٹیریا مختلف قسم کے کیمیکلوں، دواؤں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ ان پر کسی بھی دوا کے ساتھ حملہ کیا جائے یہ اس کا سامنا کرنے کے لیے فوراً ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ انسانوں کی جانب سے ان کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہونے والا سب سے موثر ہتھیار اینٹی بائیوٹکس تھا اور یہ ہتھیار بڑی تیزی سے اپنا اثر کھو رہا ہے۔ ان اینٹی بائیو ٹکس سے بچ جانے والے کئی بیکٹیریا سپر بگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور امر نہایت پریشان کن ہے کہ ہسپتالوں سے، جہاں جاتے ہوئے ہمیں امید ہوتی ہے کہ ہمارا علاج ہو گا، یہ بیماری اپنی خوفناک ترین شکل میں ہم پر حملہ آور ہو رہی ہے۔ اسے جائے عبرت ہی کہاجا سکتا ہے کہ جدید طب کے مستقبل پر بیکٹیریا جیسی ’’حقیر‘‘ شے نے سوالیہ نشان کھڑ اکر دیا ہے۔ ٭…٭…٭