خواب گاہ
سامنے ہے اک تماشاۓ بہارِ جانستاں
جا بجا بکھری ہوئی خوشبو کی خالی شیشیاں
نیم وا ہونٹوں پہ سرخی کے بہت مدھّم نشاں
ریشمی تکیے میں پیوست اس کی رنگیں انگلیاں
دیکھ اے دل شوق سے یہ آرزو کا کارواں
رنگ و بو کے سلسلے لعل و گہر کی وادیاں
پھر نہ جانے تو کہاں اور یہ حسیں منظر کہاں