شام ہوتے ہی شرابِ عشق پی کر جھومتی شہزادیا
زنداں
شام ہوتے ہی شرابِ عشق پی کر جھومتی شہزادیاں
دوریوں پر مسکراتی نازنینوں کی حسیں آبادیاں
خواہشوں کی آگ میں دن رات جلتے گُل بدن
اطلس و زر بفت کے محلوں کی تنہائی میں روتے سیم تن
شرم کی خوشبو سے جھکتی جا رہی معصوم چنچل لڑکیاں
اپنی محبوباؤں کے گُلریز پہلو میں بہکتے نوجواں
اجڑے شہروں کے مکانوں کے اکیلے نوحہ خواں
اپنے اپنے دائرے میں ہر کوئی بے چین ہے
گرد بادِ یاس و غم میں گُم ہے یہ کون و مکاں
Re: شام ہوتے ہی شرابِ عشق پی کر جھومتی شہزادیا
Umda inteKhab
sharing ka shukariya
Re: شام ہوتے ہی شرابِ عشق پی کر جھومتی شہزادیا