Log in

View Full Version : حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ



Arosa Hya
09-24-2014, 03:44 AM
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہآپ کا خاندانی نام جنید رحمتہ اللہ علیہ ، والد محترم کا نام محمد رحمتہ اللہ علیہ اور دا دا کا نام جنید قواد پری تھا۔ دادا کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا ۔ابو القاسم آپ کی کنیت تھی ۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی تاریخ پیدا ئش میں اختلاف ہے بعض تذکر ہ نگا روں نے نہا یت محتا ط انداز میں 215 ھ کو حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کا سال ولا دت قرار دیا ہے ۔
آپ کے آباؤ اجداد نہا وند کے باشندے تھے ۔ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کی ولا دت سے پہلے آپ کے والد جنا ب محمد رحمتہ اللہ علیہ نے ترک وطن کرکے بغداد کی سکونت اختیا ر کر لی تھی ۔ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ بغدادی کے والد محترم آئینہ سازی اور شیشہ گری کے آلا ت کی تجارت کیا کر تے تھے ۔ بغداد منتقل ہونے کے بعد بھی جنا ب محمد رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا وہی کا رو با ر جا ری رکھا ۔ جب حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ پانچ چھ سال کے ہوئے تو والد کے حکم سے دکان پر جا کر بیٹھنے لگے ایک دن حضرت جنید بغداد ی رحمتہ اللہ علیہ اپنے والد محترم کے ساتھ دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے ما مو ں حضر ت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے اور اپنے بہنو ئی جنا ب محمد رحمتہ اللہ علیہ کو مخاطب کر کے فرمایا یہ بچہ دکانداری اور تجا ر ت کے لیے پیدا نہیں ہو اہے آپ کے والد صاحب نے فرمایا پھر آپ ہی فرما دیں کہ یہ بچہ کس کام کے لیے دنیا میں آیا ہے ۔ جنا ب محمد رحمتہ اللہ علیہ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ جیسے عار ف بااللہ کی بات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھے ۔ اس لیے سر سری لہجے میں بولے یہ دکاندار کابیٹا ہے، دکاندار ہی بنے گا۔ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا یہ کوئی کلیہ نہیں ، اللہ اپنی قدرت بے مثال کو جس طر ح چا ہے ظاہر کرے۔ انشاءاللہ یہ بچہ وہی بنے گا جو میر ی آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے گھر لے آئے۔ اب حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ ایک عارف وقت کی صحبت کے سائے میں پرورش پا رہے تھے ۔ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے رنگ میں رنگنا شروع کر دیا ۔ ابھی ایک ہی سال گزرا تھا کہ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے ۔ اس مقدس سفر میں حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ بھی اپنے ما مو ں کے ہمرا ہ تھے اور آپ کی عمر مبا رک محض سات سال تھی ۔ مکہ معظمہ پہنچنے کے بعد ایک دن ایک مجلس خاص میں حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ تشریف فرما تھے اور آپ کے گر د عارفو ں کا ہجوم تھا ۔ باتو ں باتو ں میں یہ مسئلہ چھڑا کہ شکر کیا ہے ؟ تمام بزر گو ں نے مختلف انداز میں اپنے اپنے خیا لا ت کا اظہا ر کیا ۔ آخر میں حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ بغداد ی سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم ہی بتائو شکر کسے کہتے ہیں ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نعمتو ں کو پا کر اس کی نا فرمانی نہ کی جائے میرے نزدیک اسی کا نام شکر ہے ۔ ایک سات سالہ بچے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر تمام بزر گ جھو م اٹھے ۔ بہت دیر تک حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کی ذہا نت کی تعریف کر تے رہے ۔ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ میں نے اپنے مامو ں کی ہدا یت کے مطا بق سب سے پہلے حدیث اور فقہ کا علم حضرت ابو ثور رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کیا اور آٹھ سال آپ کی خدمت میں رہے اور پھر تصوف کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شیخ ابوعبداللہ حار ث محاسبی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری دی اور تین سال تک آپ کی صحبت سے فیض یا ب ہونے کے بعد اپنے حقیقی مر شد کی با ر گا ہ میں حاضر ہوئے ۔ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ حق پر با قاعدہ بیعت کی ۔ شیخ فرید الدین عطا ر رحمتہ اللہ علیہ آپ کے مجا ہدات بیا ن کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اہل تصوف کے پیشوا تھے۔ وہ آپ کو سید الطا ئفہ ”گروہ صوفیاءکے سردار “ کہتے تھے اور طائو س العلما ءاور سلطان المحققین لکھتے تھے ۔ آپ شریعت اور حقیقت کی انتہا پر تھے۔ زہد و عشق میں بے نظیر تھے اور طریقت میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے ۔ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں ان کو طریقت میں شیخ المشا ئخ اور شریعت میں امام الا ئمہ لکھا ہے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ بال جبریل میں فقر جنید رحمتہ اللہ علیہ کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیںشو کت سنجر و سلیم تیرے جلا ل کی نمو د
فقر جنید رحمتہ اللہ علیہ و بایزید تیرا جمال بے نقابسیر اولیا ءمیں ہے کہ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ فرما یا کر تے تھے میں نے مدینے کی گلیو ں میں حق کو پا یا ہے ۔لو گو ں نے پو چھا کیسے ؟ فرمایا ایک روز میں مدینے کے با زار میں چلا جا ر ہا تھا کہ چند خستہ حال لو گو ں کو دیکھا جن کی پریشانی کی کیفیت بیان میں نہیںآسکتی مجھے ان پر رحم آیا ۔میں نے چاہا کہ میں بھی ان کے ساتھ رہو ں ان سے موانست اختیا رکرو ں ۔ چنانچہ ان کی صحبت میں رہا اور سمجھ گیا کہ خدا شکستہ حالو ں کے ساتھ ہے ۔ حضور معلم و مقصود کا ئنا ت صلی اللہ علیہ وسلم نے مر د مومن کی شان اس طر ح بیا ن کی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں کہ ہم اس کے کا ن بن جا تے ہیں ۔ اس کی آنکھ بن جا تے ہیں اس کی زبان بن جا تے ہیں ۔ علا مہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے ایک شعر میں کم و بیش اسی مضمون کو بیا ن کیا ہے ۔
کہ بندگی کا اعلیٰ ترین مقام یہ ہے کہ جب بندہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو کا ر سا ز عالم اس کی دعا کو قبول فرمائے ۔ ایسے ہی بندے کو مستجا ب الدعوات کہتے ہیں ۔ یہی کرا مت ہے اور اسی کا نام تصوف ہے۔۔ یہی کشف با طن ہے اور یہی روشن ضمیری ہے اور اللہ کے وحدہ لا شریک ہونے پر غیرمتزلزل یقین۔ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے میں نے دس بر س تک دل کے دروازے پر بیٹھ کر دل کی حفاظت کی ہے۔ پھر دس سال تک میرا دل میری نگرانی کر تا رہا۔ اب بیس سال ہوئے کہ نہ میں دل کی خبر رکھتا ہو ں اور نہ دل میری خبر رکھتا ہے ۔ اس کے سوا کچھ نہیں مگر لو گ اس با ت کو نہیں جا نتے۔ جب بندے کے عشق اور محویت کا یہ عالم ہو تو پھر اس میں کیا شک کہ اللہ اپنے بندہ مومن کا ہاتھ بن جائے۔ ایک دن حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ مسجد میں تشریف لے گئے۔ وہا ں درویشو ں کا اجتماع تھا اور آیات قرآنی پر بحث ہو رہی تھی پھر اسی دوران مرد مو من کی طا قت کاذکر چھڑ گیا ۔ تمام درویش اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ آخر میں ایک درویش نے حاضرین کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ مرد مومن کی روحانی طاقت کا اندا زہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں کہ اگر وہ مسجد کے ایک ستون سے کہدے کہ آدھا سونے کا ہوجااور آدھا چاندی کا تو اسی وقت ہو جائے گا۔ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ میں نے اس درویش کا دعویٰ سن کر مسجد کے ستون کی طرف دیکھا واقعتا وہ آدھا سونے کا تھااور آدھا چاندی کا۔ دراصل یہ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کی نظر کیمیا گر کا اثر تھا مگر قدرت نے حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ پر یہ را ز ظاہر کر دیا کہ خود ان کی ایک نگا ہ ستون سنگ کی ماہیت کو بدل سکتی ہے ۔ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے کہ جو قرآن حکیم کا پیرو نہ ہو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقلد نہ ہو اس کی تقلید ہر گز ہرگز نہ کرو ورنہ گمراہ ہو جائو گے ۔ ایک اور مو قع پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے را ستے کے سوا تمام راستے مخلوق پر بند ہیں ۔ آپ کے قول مبا رک کی تشریح یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا را ستہ چھوڑ کر جس را ستے پر چلے گمراہی اس کا مقدر بن جا ئے گی ۔ حضرت جنید بغدا دی رحمتہ اللہ علیہ اس قدر عبادت گزار تھے کہ پورے تیس سال تک ایک پا ئوں پر کھڑے ہوکر ذکر خدا میں مشغول رہے ۔ یہاں تک کہ نماز فجر کا وقت آجا تا اور عشاءکے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے ۔ پھر 298 ھ میں اسلام کا یہ جانباز تھک کر بستر علالت پر درا ز ہو گیا ۔ مریدو ں نے سمجھا کوئی عام سی بیما ری ہے ، جلدی گزر جائے گی مگر وہ مر ض المو ت تھی۔ جمعتہ المبارک کے دن آپ تلا وت قرآن پاک کیے جا رہے تھے جب سورئہ بقرہ کی آیت نمبر 70 پر پہنچے تو ایک لمحے کے لیے ٹھہر گئے


: قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ



70: "Call on your Lord," they said, "to name its variety, as cows be all alike to us. If God wills we shall be guided aright."



70: انہوں نے کہا کہ (اب کے) پروردگار سے پھر درخواست کیجئے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ اور کس کس طرح کا ہو، کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، (پھر) خدا نے چاہا تو ہمیں ٹھیک بات معلوم ہو جائے گی






پھر آپ نے کسی قدر بلندآواز میں بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ کہا اورروح مبا رک آسمانو ں کی طر ف پر وا ز کر گئی۔ جب آپ کا جنا زہ اٹھا یا گیا تو ایک سفید رنگ کا کبو ترآیا اور جنا زہ کے ایک کو نے میں بیٹھ گیا ۔ لوگوں نے اس کو اُڑانے کی کو شش کی لیکن وہ نہ اُڑا اور کہا کہ مجھے اور اپنے آپ کو رنج نہ دو کیو نکہ میرے عشق کی جڑیں کا فی مضبو ط ہیں

intelligent086
09-24-2014, 10:28 AM
سبحان اللہ
اگرآیت کا کا ترجمہ بھی لکھ دیا جاتا تو بہت اچھا تھا
اچھی معلومات
جزاک اللہ خیر

Arosa Hya
09-24-2014, 12:58 PM
سبحان اللہ
اگرآیت کا کا ترجمہ بھی لکھ دیا جاتا تو بہت اچھا تھا
اچھی معلومات
جزاک اللہ خیر


Done !

Daniel-7
09-27-2014, 10:49 PM
Very informative very nice sharing. Hazrat Junaid bagdadi (RA) ke bare me issey qabal main kuchh nahi padha tha. Bahot shukriya.