PDA

View Full Version : نغمۂ بیابانی



intelligent086
09-18-2014, 09:15 PM
نغمۂ بیابانی



ہوا روز قصبے کی کہنہ حویلی کا در کھولتی ہے
زمانے کی بوسیدگی سے
کوئی روح آزاد ہو کر
مجھے اوڑھ لیتی ہے
اپنے علاقے سے نکلا ہوا اجنبی میں
مرا جسم بارانی رستوں، زمینوں میں خود رو
جڑی بوٹیوں کی طرح پھیلتا پھولتا
نیم شاداب کھیتوں کی بے آبیوں سے گزر کر
کسی تیز برساتی نالے میں گرتا ہے
سیرابیوں کی کہانی کئی موڑ مڑتی ہے
دریا کی طغیانیوں میں
کئی رس کی باتیں ہیں، گھاتیں ہیں
جنگل ہیں، بیلے ہیں، صدیوں پرانے کٹاؤ ہیں
گھاؤ ہیں، گہرے بہاؤ ہیں
اپنے بہاؤ میں خود ڈوبنے کی تمنا عجب ہے
ہوا جانتی ہے
ہوا جانتی ہے
مرے سنگ یادوں کا میلہ ہے، عمروں کی وارفتگی ہے
جواں سال لمحوں کی رونق ہے، بوڑھے زمانوں کی افسردگی ہے
ارادوں سے لبریز دن کی مشقت ہے
خوابوں سے معمور شب کی سیاہی ہے
نیچر کی بے پایاں دولت ہے
سورج کا سونا ہے، تاروں کی چاندی ہے
بے انت پھیلا ہوا آسماں ہے
افق کے کنارے پہ روٹی نما چاند ہے
لالٹینوں کی کم روشنی ہے
الاؤ ہیں
خانہ بدوشوں کے ڈیرے ہیں
ناقہ سواروں کی پرچھائیاں ہیں
ہوا جانتی ہے
ہوا جانتی ہے
مرے دل سے لپٹی ہوئی ایک وعدے کی رسی ہے
آنکھوں میں ٹوٹا ہوا ایک عہد محبت ہے
خوابوں کی مٹی ہے
بے موسمی بارشوں کی نمی ہے
مجھے کیا کمی ہے
ہوا جانتی ہے
پرانا میوزک سناتی، اداسی کو ڈی کوڈ کرتی
ہوا وائلن کی طرح
مجھ سے میرے قدیمی دکھوں کی زباں بولتی ہے
ہوا روز قصبے کی کہنہ حویلی کا در کھولتی ہے
٭٭٭