intelligent086
09-15-2014, 01:27 AM
اے گلِ نو دمیدہ کے مانند
ہے تُو کس آفریدہ کے مانند
ہم اُمید وفا پہ تیرے ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند
سر اُٹھاتے ہی ہو گئے پامال
سبزۂ نو دمیدہ کے مانند
نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو
نالہ تیغِ کشیدہ کے مانند
ہم گرفتارِ حال ہیں اپنے
طائرِ پر پریدہ کے مانند
دل تڑپتا ہے اشکِ خونیں میں
صیدِ در خوں تپیدہ کے مانند
تجھ سے یوسف کو کیوں کے نسبت دیں
کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندۂ زر خریدہ کے مانند
ہے تُو کس آفریدہ کے مانند
ہم اُمید وفا پہ تیرے ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند
سر اُٹھاتے ہی ہو گئے پامال
سبزۂ نو دمیدہ کے مانند
نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو
نالہ تیغِ کشیدہ کے مانند
ہم گرفتارِ حال ہیں اپنے
طائرِ پر پریدہ کے مانند
دل تڑپتا ہے اشکِ خونیں میں
صیدِ در خوں تپیدہ کے مانند
تجھ سے یوسف کو کیوں کے نسبت دیں
کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندۂ زر خریدہ کے مانند