intelligent086
09-02-2014, 11:08 PM
! (http://bilaunwan.wpurdu.com/geo-tu-aisay/)
لو کا تھپیڑا ہمارے چہروں کی طرف بڑھا اور بس اسٹاپ پر موجود تمام ہی لوگوں نے اپنے منہ کو ہاتھ میں تھامی ہوئی مختلف چیزوں سے ڈھانپنے کی کوشش شروع کردی۔ جن کے پاس کچھ نہ تھا انہوں نے ہاتھ ہی سے اپنے چہرہ کو گرم لو سے بچانے کی سعی کی۔ سب کے چہروں پر موجود کوفت کی چھاپ مزید گہری ہوگئی۔
ستمبر کا مہینہ پوری شدت سے ستم گر ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ اسٹاپ پر موجود سب ہی افراد ماتھے پر شکن لیے اور آنکھوں کو میچ کیے بس کے انتظار میں کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن بس کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔ مجھ سمیت سب ہی کے چہروں سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں یہ بس اسٹاپ جہنم کا کوئی کونا محسوس ہورہا ہے۔
ایسے میں اچانک مجمع کے پیچھے سے ایک فقیر کی سدا سنائی دی۔ کچھڑی نما داڑھی اور میلے کپڑے پہنا وہ عمر رسیدہ شخص بس کے انتظار میں کھڑے لوگوں کے پاس باری باری جا کر ہاتھ پھیلاتا اور مختلف دعائیں دے رہا تھا۔ جواباَ کچھ سخی لوگوں نے اس کی مدد کی جبکہ دیگر نے چاروناچار اس گرمی کو باعث عبرت سمجھتے ہوئے جہنم کی آگ سے خلاصی کی دعا کرتے ہوئے چند سکے اس غریب کی لکیروں بھری ہتھیلی پر رکھ دیے۔
اسٹاپ پر موجود تمام لوگوں سے فارغ ہو کر وہ سڑک کی طرف چلا گیا۔ “اس سڑی ہوئی گرمی میں یہ اپنی منزل تک کیسے جائے گاَ؟” یہ سوال ذہن میں آتے ہی سب ترس بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے۔ وہ چند قدم آگے بڑھا، وہاں کھڑے ٹیکسی ڈرائیور سے چند جملوں کا تبادلہ کیا اور پھر ٹیکسی میں بیٹھ کر چلتا بنا۔ بس کے انتظار میں کھڑے تمام ہی لوگوں نے پہلے ٹیکسی کو گھورا اور پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کھسیانے انداز میں مسکرانے لگے۔ ٹیکسی کے پیچھے جلی حروف میں لکھا تھا “جیو تو ایسے!”۔
لو کا تھپیڑا ہمارے چہروں کی طرف بڑھا اور بس اسٹاپ پر موجود تمام ہی لوگوں نے اپنے منہ کو ہاتھ میں تھامی ہوئی مختلف چیزوں سے ڈھانپنے کی کوشش شروع کردی۔ جن کے پاس کچھ نہ تھا انہوں نے ہاتھ ہی سے اپنے چہرہ کو گرم لو سے بچانے کی سعی کی۔ سب کے چہروں پر موجود کوفت کی چھاپ مزید گہری ہوگئی۔
ستمبر کا مہینہ پوری شدت سے ستم گر ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ اسٹاپ پر موجود سب ہی افراد ماتھے پر شکن لیے اور آنکھوں کو میچ کیے بس کے انتظار میں کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن بس کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔ مجھ سمیت سب ہی کے چہروں سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں یہ بس اسٹاپ جہنم کا کوئی کونا محسوس ہورہا ہے۔
ایسے میں اچانک مجمع کے پیچھے سے ایک فقیر کی سدا سنائی دی۔ کچھڑی نما داڑھی اور میلے کپڑے پہنا وہ عمر رسیدہ شخص بس کے انتظار میں کھڑے لوگوں کے پاس باری باری جا کر ہاتھ پھیلاتا اور مختلف دعائیں دے رہا تھا۔ جواباَ کچھ سخی لوگوں نے اس کی مدد کی جبکہ دیگر نے چاروناچار اس گرمی کو باعث عبرت سمجھتے ہوئے جہنم کی آگ سے خلاصی کی دعا کرتے ہوئے چند سکے اس غریب کی لکیروں بھری ہتھیلی پر رکھ دیے۔
اسٹاپ پر موجود تمام لوگوں سے فارغ ہو کر وہ سڑک کی طرف چلا گیا۔ “اس سڑی ہوئی گرمی میں یہ اپنی منزل تک کیسے جائے گاَ؟” یہ سوال ذہن میں آتے ہی سب ترس بھری نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے۔ وہ چند قدم آگے بڑھا، وہاں کھڑے ٹیکسی ڈرائیور سے چند جملوں کا تبادلہ کیا اور پھر ٹیکسی میں بیٹھ کر چلتا بنا۔ بس کے انتظار میں کھڑے تمام ہی لوگوں نے پہلے ٹیکسی کو گھورا اور پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کھسیانے انداز میں مسکرانے لگے۔ ٹیکسی کے پیچھے جلی حروف میں لکھا تھا “جیو تو ایسے!”۔