intelligent086
09-02-2014, 01:45 AM
نالائق شاگرد
ایک شخص کشتی لڑنے کے فن میں بڑا ماہر تھا۔ تین سو ساٹھ دائو مقابل کو پچھاڑنے اور اکھاڑنے کے اسے آتے تھے۔ اس کا ایک منظور نظر شاگرد بھی تھا۔ اس نے اس کو تین سو انسٹھ دائو سکھادیئے تھے لیکن ایک دائو نہ سکھایا تھا۔ قصہ مختصر وہ لڑکا کشتی کے فن میں ماہر ہو گیا۔ کسی کے لیے اس زمانے میں اس کے ساتھ مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔ یہاں تک کہ اس نے وقت کے بادشاہ کے سامنے کہہ دیا کہ اس کے استاد کو جو اس پر برتری حاصل ہے۔ وہ بزرگی اور تربیت کی وجہ سے ہے۔ اس نے کہا۔ ’’وہ چونکہ میرا استاد ہے میں اس کی عزت کرتا ہوں۔ ورنہ میں طاقت میں اس سے کم نہیں ہوں۔ فن کشتی میں اس کا ہمسر ہوں۔‘‘ بادشاہ کو اس بات کا یقین نہ آیا۔ اس نے استاد اور شاگرد دونوں کو کشتی لڑنے کا حکم دیا۔ ایک وسیع جگہ کشتی کا اکھاڑہ بنایا گیا۔ بادشاہ اس کے امیر وزیر اور دوسرے لوگ کشتی دیکھنے کو جمع ہو ئے۔ نقارے پر چوٹ پڑی۔ لڑکا خم ٹھونک کر مست ہاتھی کی طرح جھومتا اور جھولتا ہوا آیا جیسے طاقت کا پہاڑ بھی اس کے سامنے آئے گا تو وہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔ استاد خوب سمجھتا تھا کہ اس کا شاگرد بڑا شہ زور ہے۔ اس سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب دونوں آپس میں گتھم گتھا ہوئے تو استاد نے وہی پوشیدہ دائو آزمایا جو اس نے شاگرد کو نہ سکھایا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے اسے زمین سے اٹھا کر سر کے اوپر لے گیااور زمین پردے پٹکا۔ شاگرد چاروں شانے چت نیچے اور استاد خم ٹھونکتا ہوا اس کے سینے پر۔ لوگوں کی طرف سے واہ واہ کا شور بلند ہوا۔ بادشاہ نے استاد کو انعام و اکرام سے نوازا اور اس کے شاگرد کو لعنت ملامت کی۔ بادشاہ نے اس سے کہا۔ ’’نا ہنجار،نابکار،تونے اپنے پرورش کرنے والے کے ساتھ مقابلے کا دعویٰ کیا اور اسے پور انہ کیا۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’بادشاہ سلامت، استاد طاقت سے نہیں فن سے بازی لے گیا ہے۔ ایک دائو رہ گیا تھا جو اس نے مجھے نہیںبتایا تھا جس کے سکھانے میں ٹال مٹول کرتا تھا۔ اسی دائو کی وجہ سے مجھے پچھاڑا ہے۔‘‘استاد نے جوا ب دیا۔ ’’یہ دائو اس دن کے لیے اٹھا رکھا تھا۔ کیونکہ دانائوں نے کہا ہے کہ دوست کو اس قدر قوت نہ دو کہ اگر دشمن ہو جائے تو نقصان پہنچائے۔ اس کو تیر اندازی کا فن اتنا نہ سکھائو کہ آخر کار تمہیں ہی نشانہ بنائے۔‘‘
ایک شخص کشتی لڑنے کے فن میں بڑا ماہر تھا۔ تین سو ساٹھ دائو مقابل کو پچھاڑنے اور اکھاڑنے کے اسے آتے تھے۔ اس کا ایک منظور نظر شاگرد بھی تھا۔ اس نے اس کو تین سو انسٹھ دائو سکھادیئے تھے لیکن ایک دائو نہ سکھایا تھا۔ قصہ مختصر وہ لڑکا کشتی کے فن میں ماہر ہو گیا۔ کسی کے لیے اس زمانے میں اس کے ساتھ مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔ یہاں تک کہ اس نے وقت کے بادشاہ کے سامنے کہہ دیا کہ اس کے استاد کو جو اس پر برتری حاصل ہے۔ وہ بزرگی اور تربیت کی وجہ سے ہے۔ اس نے کہا۔ ’’وہ چونکہ میرا استاد ہے میں اس کی عزت کرتا ہوں۔ ورنہ میں طاقت میں اس سے کم نہیں ہوں۔ فن کشتی میں اس کا ہمسر ہوں۔‘‘ بادشاہ کو اس بات کا یقین نہ آیا۔ اس نے استاد اور شاگرد دونوں کو کشتی لڑنے کا حکم دیا۔ ایک وسیع جگہ کشتی کا اکھاڑہ بنایا گیا۔ بادشاہ اس کے امیر وزیر اور دوسرے لوگ کشتی دیکھنے کو جمع ہو ئے۔ نقارے پر چوٹ پڑی۔ لڑکا خم ٹھونک کر مست ہاتھی کی طرح جھومتا اور جھولتا ہوا آیا جیسے طاقت کا پہاڑ بھی اس کے سامنے آئے گا تو وہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔ استاد خوب سمجھتا تھا کہ اس کا شاگرد بڑا شہ زور ہے۔ اس سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب دونوں آپس میں گتھم گتھا ہوئے تو استاد نے وہی پوشیدہ دائو آزمایا جو اس نے شاگرد کو نہ سکھایا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے اسے زمین سے اٹھا کر سر کے اوپر لے گیااور زمین پردے پٹکا۔ شاگرد چاروں شانے چت نیچے اور استاد خم ٹھونکتا ہوا اس کے سینے پر۔ لوگوں کی طرف سے واہ واہ کا شور بلند ہوا۔ بادشاہ نے استاد کو انعام و اکرام سے نوازا اور اس کے شاگرد کو لعنت ملامت کی۔ بادشاہ نے اس سے کہا۔ ’’نا ہنجار،نابکار،تونے اپنے پرورش کرنے والے کے ساتھ مقابلے کا دعویٰ کیا اور اسے پور انہ کیا۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’بادشاہ سلامت، استاد طاقت سے نہیں فن سے بازی لے گیا ہے۔ ایک دائو رہ گیا تھا جو اس نے مجھے نہیںبتایا تھا جس کے سکھانے میں ٹال مٹول کرتا تھا۔ اسی دائو کی وجہ سے مجھے پچھاڑا ہے۔‘‘استاد نے جوا ب دیا۔ ’’یہ دائو اس دن کے لیے اٹھا رکھا تھا۔ کیونکہ دانائوں نے کہا ہے کہ دوست کو اس قدر قوت نہ دو کہ اگر دشمن ہو جائے تو نقصان پہنچائے۔ اس کو تیر اندازی کا فن اتنا نہ سکھائو کہ آخر کار تمہیں ہی نشانہ بنائے۔‘‘