PDA

View Full Version : حضرت زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا



intelligent086
08-30-2014, 01:59 AM
نام ونسب

زینب نام، ام الحکیم کنیت، قبیلہ قریش کے خاندان اسد بن خزیمہ سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے، زینب بنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرۃ بن مرۃ بن کثیر بن غنم بن دودان بن سعد بن خزیمہ، والدہ کا نام امیمہ تھا جوعبدالمطلب جدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر تھیں اس بناپر حضرت زینب رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی زاد بہن تھیں۔

اسلام

نبوت کے ابتدائی دور میں اسلام لائیں، اسدالغابہ میں ہے: وَکَانَتْ قَدِیْمَۃُ الْإِسْلَامِ۔

ترجمہ: قدیم اسلام تھیں۔
(اسدالغابہ،كتاب النساء،زينب بِنْت جحش:۱/۳۵۷، شاملہ، موقع الوراق)

نکاح

آنحضرت صلی اللہع لیہ وسلم نے زید بن حارثہ کے ساتھ جوآپ کے آزاد کردہ غلام اور متبنی تھے ان کا نکاح کردیا، اسلام نے دنیا میں مساوات کی جوتعلیم رائج کی ہے اور پست وبلند کوجس طرح ایک جگہ پرلاکرکھڑا کردیا ہے؛ اگرچہ تاریخ میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں؛ لیکن یہ واقعہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ان سب پرفوقیت رکھتا ہے؛ کیونکہ اسی سے عملی تعلیم کی بنیاد قائم ہوتی ہے، قریش اور خصوصاً خاندان ہاشم کوتولیت کعبہ کی وجہ سے عرب میں جودرجہ حاصل تھا اس کے لحاظ سے شاہان یمن بھی ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتے تھے؛ لیکن اسلام نے محض تقویٰ کوبزرگی کا معیار قرار دیا اور فخروادعاء کوجاہلیت کا شعار ٹھہرایا ہے، اس بناپراگرچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بظاہر غلام تھے تاہم چونکہ (وہ مسلمان اور مرد صالح تھے اس لیے آنحضرت کوان کے ساتھ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا عقد کردینے میں کوئی تکلف نہیں ہوا) تعلیم مساوات کے علاوہ اس نکاح کا ایک مقصد اور بھی تھا جواسدالغابہ میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے:
تَزَوَّجُهَا لِيَعْلَمها كِتَابُ اللهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِهِ۔
(اسدالغابہ،كتاب النساء،زينب بِنْت جحش:۱/۳۵۷، شاملہ، موقع الوراق)
ترجمہ:یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح زید رضی اللہ عنہ سے اس لیے کیا تھا کہ ان کوقرآن وحدیث کی تعلیم دیں۔

تقریباً ایک سال تک دونو ں کا ساتھ رہا؛ لیکن پھرتعلقات قائم نہ رہ سکے اور شکررنجی بڑھتی گئی، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوت میں شکایت کی (ترمذی:۵۳۱) اور طلاق دینا چاہا:
جَاءَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةُ، فَقَالَ: يَارَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ زَيْنَبَ اِشْتَدَّ عَليَّ لِسَانِهَا، وَأَنَّاأُرِيْدُ أَنْ أُطَلِّقَهَا؟۔
(فتح الباری، ابن حجر،قوله باب وتخفى في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس والله أحق أن تخشاه:۸/۵۲۴، شاملہ، الناشر: دار المعرفة،بيروت)
ترجمہ:زید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ زینب مجھ سے زبان درازی کرتی ہیں اور میں ان کوطلاق دینا چاہتا ہوں۔

لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اُن کوسمجھاتے تھے کہ طلاق نہ دیں، قرآن مجید میں ہے:
وَإِذْتَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ۔
(الأحزاب:۳۷)
ترجمہ:اور جب کہ تم اس شخص سے جس پرخدا نے اور تم نے احسان کیا تھا یہ کہتے تھےکہ اپنی بیوی کونکاح میں لیے رہو اور خدا سے خوف کرو۔

لیکن یہ کسی طرح صحبت برآنہ ہوسکے اور آخر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ان کوطلاق دیدی حضرت زینب رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی(پھوپو زاد) بہن تھیں اور آپ ہی کی تربیت میں پلی تھیں، آپ کے فرمانے سے انہوں نے یہ رشتہ منظور کرلیا تھا، جوان کے نزدیک ان کے خلاف شان تھا (چونکہ زید رضی اللہ عنہ غلام رہ چکے تھےاس لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہ کویہ نسبت گوارا نہ تھی) بہرحال وہ مطلقہ ہوگئیں توآپ نے ان کی دلجوئی کے لیے خود ان سے نکاح کرلینا چاہا؛ لیکن عرب میں اس وقت تک متبنیٰ اصلی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا، اس لیے عام لوگوں کے خیال سے آپ تامل فرماتے تھے؛ لیکن چونکہ یہ محض جاہلیت کی رسم تھی اور اس کا مٹانا مقصود تھا اس لیے یہ آیت نازل ہوئی:
وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَااللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ۔
(الأحزاب:۳۷)
ترجمہ:اورتم اپنے دل میں وہ بات چھپاتے ہو جس کو خدا ظاہر کردینے والا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہو؛ حالانکہ ڈرنا خدا سے چاہیے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم زینب رضی اللہ عنہا کے پاس میرا پیغام لےکر جاؤ، زید رضی اللہ عنہ ان کے گھر آئے تووہ آٹا گوندھنے میں مصروف تھیں، چاہا کہ ان کی طرف دیکھیں لیکن پھرکچھ سوچ کرمنہ پھیرلیا اور کہا: زینب! رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لایا ہوں، جواب ملا میں بغیر استخارہ کیے کوئی رائے قائم نہیں کرتی، یہ کہا اور مصلی پرکھڑی ہوگئیں، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی آئی فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا (الأحزاب:۳۷) اور نکاح ہوگیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مکان پرتشریف لائے، دن چڑھے دعوت ولیمہ ہوئی جواسلام کی سادگی کی اصلی تصویر تھی اس میں روٹی اور سالن کا انتظام تھا، انصار میں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں مالیدہ بھیجا تھا؛ غرض سب چیزیں جمع ہوگئیں توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کولوگوں کے بلانے کے لیے بھیجا ۳۰۰/آدمی شریک دعوت ہوئے، کھانے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس دس آدمیوں کی ٹولیاں کردی تھیں، باری باری آتے اور کھانا کھاکر واپس جاتے تھے؛ اسی دعوت میں آیتِ حجاب اُتری، جس کی وجہ یہ تھی کہ چند آدمی مدعو تھے، کھاکر باتیں کرنے لگے اور اس قدر دیر لگائی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرطِ مروت سے خاموش تھے، بار بار اندر جاتے اور باہر آتے تھے؛ اسی مکان میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا بھی بیٹھی ہوئی تھیں اور اُن کا منہ دیوار کی طرف تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ورفت کودیکھ کربعضوں کوخیال ہوا اور اُٹھ کرچلے گئے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجودوسری ازواج کے مکان میں تھے، اطلاع دی، آپ باہر تشریف لائے تووحی کی زبان اس طرح گویا ہوئی:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَاتَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّاأَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَادُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَامُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَايَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَاسَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ۔
(الأحزاب:۵۳)
ترجمہ:اے ایمان والو! نبی کے گھروں پرمت جایا کرو؛ مگرجس وقت تم کوکھانے کے لیے اجازت دی جائے اسیے طور پرکہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو لیکن جب تم کوبلایا جائے تب جایا کرو؛ پھرجب کھانا کھاچکو تواُٹھ کرچلے جایا کرو اور باتوں میں جی لگاکر مت بیٹھے رہا کرو اس بات سے نبی کوناگواری پیدا ہوتی ہے سووہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صاف بات کہنے سے لحاظ نہیں کرتا ہے اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو توپردہ کے باہر مانگو۔

آپ نے دروازہ پرپردہ لٹکادیا اور لوگوں کوگھر کے اندر جانے کی ممانعت ہوگئی یہ ذوالقعدہ سنہ۵ھ کا واقعہ ہے۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کی چند خصوصیتیں ہیں جوکہیں اور نہیں پائی جاتیں، ان کے نکاح سے جاہلیت کی ایک رسم کہ متبنیٰ اصلی بیٹے کا حکم رکھتا ہے مٹ گئی مساوات اسلامی کا وہ عظیم الشان منظر نظر آیا کہ آزاد غلام کی تمیز اُٹھ گئی پردہ کا حکم ہوا، نکاح کے لیے وحی الہٰی آئی، ولیمہ میں تکلف ہوا، اسی بناپر حضرت زینب اور ازواج کے مقابلہ میں فخر کیا کرتی تھیں۔
(ترمذی:۴۳۱)

ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن میں جوبیبیاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہمسری کا دعویٰ رکھتی تھیں ان میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا خصوصیت کے ساتھ ممتاز تھیں، خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْهُنَّ فِي الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
(مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا،حدیث نمبر:۴۴۷۲، شاملہ، موقع لإسلام)
ترجمہ:ازواج میں سے وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں عزت ومرتبہ میں میرا مقابلہ کرتی تھیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی ان کی خاطر داری منظور رہتی تھی؛ یہی وجہ تھی کہ جب چند ازواج نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کوسفیر بناکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا اور وہ ناکام واپس آئیں توسب ے اس خدمت (سفارت) کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتخاب کیا؛ کیونکہ وہ اس خدمت کے لیے زیادہ موزوں تھیں؛ انہوں نے بڑی دلیری سے پیغام ادا کیا اور بڑے زور کے ساتھ یہ ثابت کرنا چاہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس رتبہ کی مستحق نہیں ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چپ سن رہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھتی جاتی تھیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا جب تقریر کرچکیں تومرضی پاکر کھڑی ہوئیں اور اس زور شور کے ساتھ تقریر کی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا لاجواب ہوکر رہ گئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہ ہو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔
(مسلم، فضل عائشہ رضی اللہ عنہا)

وفات

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے فرمایا تھا:
أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا۔
(مسلم،كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ زَيْنَبَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر:۴۴۹۰، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:تم میں مجھ سے جلد وہ ملے گی جس کا ہاتھ لمبا ہوگا۔

یہ استعارۃ فیاضی کی طرف اشارہ تھا؛ لیکن ازواجِ مطہرات اس کوحقیقت سمجھیں؛ چنانچہ باہم اپنے ہاتھوں کوناپاکرتی تھیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنی فیاضی کی بناپر اس پیشین گوئی کا مصداق ثابت ہوئیں، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن میں سب سے پہلے انتقال کیا، کفن کا خود سامان کرلیا تھا اور وصیت کی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی کفن دیں توان میں سے ایک کوصدقہ کردینا، چنانچہ یہ وصیت پوری کی گئی، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی، اس کے بعد ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے دریافت کیا کہ کون قبر میں داخل ہوگا؛ انہوں نے کہا وہ شخص جوان کے گھر میں داخل ہوا کرتا تھا؛ چنانچہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن ابی احمد بن جحش رضی اللہ عنہ نے ان کوقبر میں اُتارا اور بقیع میں سپردِ خاک کیا۔
(بخاری:۱/۱۹۱۔ مسلم:۲/۳۴۱۔ اسدالغابہ:۵/۴۶۵)

حضرت زینب رضی اللہ عنہ نے سنہ۲۰ھ میں انتقال کیا اور ۵۳/سال کی تھیں؛ لیکن یہ عام روایت کے خلاف ہے، عام روایت کے مطابق ان کا سن ۳۷/سال کا تھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے مال متروکہ میں صرف ایک مکان یادگار چھوڑا تھا، جس کوولید بن عبدالملک نے اپنے زمانہ حکومت میں پچاس ہزار درہم پرخرید کیا اور وہ مسجد نبوی میں شامل کردیا گیا۔
(طبری:۱۳/۲۴۴۹)

حلیہ

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کوتاہ قامت لیکن خوبصورت اور موزوں اندام تھیں۔
(زرقانی:۳/۲۸۳)

فضل وکمال

روایتیں کم کرتی تھیں، کتب حدیث میں ان سے صرف گیارہ روایتیں منقول ہیں راویوں میں حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا، زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا، محمد بن عبداللہ بن جحش (برادرزادہ) کلثوم بنتِ طلق اور مذکور (غلام) داخل ہیں۔

اخلاق

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
وَكَانَتْ صَالِحةً صَوَّامةً قوَّامةً۔
(زرقانی بحوالہ ابن سعد)
ترجمہ:یعنی حضرت زینب رضی اللہ عنہا نیک خو، روزہ دار ونماز گذار تھیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
وَلَمْ أَرَ امْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ وَأَتْقَى لِلَّهِ وَأَصْدَقَ حَدِيثًا وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ وَأَعْظَمَ صَدَقَةً وَأَشَدَّ ابْتِذَالًالِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ وَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مَاعَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ كَانَتْ فِيهَا تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ۔
(مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا،حدیث نمبر:۴۴۷۲، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:میں نے کوئی عورت زینب رضی اللہ عنہا سے زیادہ دیندار، زیادہ پرہیزگار، زیادہ راست گفتار، زیادہ فیاض، مخیراور خدا کی رضا جوئی میں زیادہ سرگرم نہیں دیکھی فقط مزاج میں ذراتیزی تھی جس پران کوبہت جلد ندامت بھی ہوتی تھی۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا زہد وتورع میں یہ حال تھا کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا گیا اور اس اتہام میں خود حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی بہن حمنہ شریک تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اخلاقی حالت دریافت کی توانہوں نے صاف لفظوں میں کہدیا:

مَاعَلِمْتُ الْاخيرا۔

ترجمہ: مجھ کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھلائی کے سوا کسی چیز کا علم نہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوان کے اس صدق وقرار حق کا اعتراف کرنا پڑا۔

عبادت میں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ مصروف رہتی تھیں، ایک مرتبہ آپ مہاجرین پرکچھ مال تقسیم کررہے تھے، حضرت زینب رضی اللہ عنہا اس معاملہ میں کچھ بول اُٹھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا، آپ نے فرمایا ان سے درگذر کرو یہ اَوّاہ ہیں (اصابہ:۸/۹۳) (یعنی خاشع ومتضرع ہیں)۔

نہایت قانع اور فیاض طبع تھیں، خود اپنے دست وبازو سے معاش پیدا کرتی تھیں اور اس کوخدا کی راہ میں لٹادیتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تومدینہ کے فقرا اور مساکین میں سخت کھلبلی پیدا ہوگئی اور وہ گھبراگئے (ابن سعد:۸/۷۸) ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا سالانہ نفقہ بھیجا، انہوں نے اس پرایک کپڑا ڈال دیا اور بزرہ بنت رافع کوحکم دیا کہ میرے خاندانی رشتہ داروں اور یتیموں کوتقسیم کردو، بزرہ نے کہا: آخر ہمارا بھی کچھ حق ہے؟ انہوں نے کہا کپڑے کے نیچے جوکچھ ہو وہ تمہارا ہے، دیکھا توپچاسی درہم نکلے، جب تمام مال تقسیم ہوچکا تودعا کی کہ خدایا اس سال کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ کے عطیہ سے فائدہ نہ اٹھاؤں دعا قبول ہوئی اور اسی سال انتقال ہوگیا۔
(ابن سعد:۸/۷۸

Mamin Mirza
08-30-2014, 10:52 AM
Jazak Allah..................................!!!

Admin
09-01-2014, 10:25 AM
Thanks FOr Sharing Brother Keep It up