PDA

View Full Version : حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا



intelligent086
08-30-2014, 01:46 AM
نام ونسب

ہند نام، ام سلمہ کنیت، قریش کے خاندان مخزوم سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، ہند بنت ابی امیہ سہیل بن المغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم، والدہ بنوفراس سے تھیں اور ان کا سلسلہ نسب یہ ہے، عاتکہ بنت عامربن ربیعہ بن مالک بن جذیمہ بن علقمہ بن جذل الطعان ابن فراس بن غنم بن مالک بن کنانہ۔

ابوامیہ (حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ) مکہ کے مشہور مخیراورفیاض تھے، سفر میں جاتے توتمام قافلہ والوں کی کفالت خود کرتے تھے؛ اسی لیے زادالراکب کے لقب سے مشہور تھے (اصابہ:۸/۲۴۰) حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان ہی کے آغوش تربیت میں نہایت نازونعمت سے پرورش پائی۔

نکاح

عبداللہ بن عبدالاسد سے جوزیادہ ترابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہیں اور جوام سلمہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے، نکاح ہوا۔

اسلام

آغازِ نبوت میں اپنے شوہر کے ساتھ ایمان لائیں۔

ہجرت حبشہ

اور ان ہی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی، حبشہ میں کچھ زمانہ تک قیام کرکے مکہ واپس آئیں اور یہاں سے مدینہ ہجرت کی ہجرت میں ان کویہ فضیلت حاصل ہے کہ اہلِ سیر کے نزدیک وہ پہلی عورت ہیں جوہجرت کرکے مدینہ میں آئیں۔

ہجرتِ مدینہ

ہجرت کا واقعہ نہایت عبرت انگیز ہے، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ہمراہ ہجرت کرنا چاہتی تھیں (ان کا بچہ سلمہ بھی ساتھ تھا) لیکن (حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے) قبیلہ نے مزاحمت کی تھی، اس لیے حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ان کوچھوڑ کرمدینہ چلے گئے تھے اور یہ اپنے گھرواپس آگئی تھیں ادھرسلمہؓ کوابوسلمہؓ کے خاندان والے حضرت اُم سلمہ کے پاس سے چھین لے گئے، اس لیے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کواور بھی تکلیف تھی؛ چنانچہ روزانہ گھبراکر گھر سے نکل جاتیں اور ابطح میں بیٹھ کررویا کرتیں تھیں، سات یاآٹھ دن تک یہ حالت رہی اور خدان کے لوگوں کواحساس تک نہ ہوا ایک دن ابطح سے ان کے خاندان کا ایک شخص نکلا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کوروتے ہوئے دیکھا تواس کا دل بھرآیا، گھرآکرلوگوں سے کہا کہ اس غریب پرظلم کیوں کرتے ہو؟ اس کوجانے دواور اس کا بچہ اس کے حوالے کردو، روانگی کی اجازت ملی توبچے کوگود میں لے کراونٹ پرسوار ہوگئیں اور مدینہ کا راستہ لیا؛ چونکہ وہ بالکل تنہا تھیں، یعنی کوئی مرد ساتھ نہ تھا، تنعیم میں عثمان بن طلحہ (کلید بردار کعبہ) کی نظر پڑی، بولا کدھر کا قصد ہے؟ کہا: مدینے کا، پوچھا کوئی ساتھ بھی ہے؟ جواب میں بولیں: خدا اور یہ بچہ، عثمان نے کہا: یہ نہیں ہوسکتا تم تنہا کبھی نہیں جاسکتیں، یہ کہہ کراونٹ کی مہار پکڑی اور مدینہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں جب کہیں ٹھہرتا تواونٹ کوبٹھاکر کسی درخت کے نیچے چلاجاتا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اُترپڑتیں، روانگی کا وقت آتا تواونٹ پرکجاوہ رکھ کرہٹ جاتا اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہتا کہ سوار ہوجاؤ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شریف آدمی کبھی نہیں دیکھا، غرض مختلف منزلوں پرقیام کرتا ہوا، مدینہ لایا، قبا کی آبادی پرنظرپڑی توبولا، اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ وہ یہیں مقیم ہیں، یہ ادھر روانہ ہوئیں اور عثمان نے مکہ کا راستہ لیا۔
(زرقانی:۳/۲۷۲،۲۷۳)

قبا پہنچیں تولوگ ان کا حال پوچھتے تھے اور جب یہ اپنے باپ کا نام بتاتیں توان کویقین نہیں آتا تھا (یہ حیرت ان کے تنہا سفر کرنے پرتھی، شرفا کی عورتیں اس طرح باہر نکلنے کی جرأت نہیں کرتی تھیں) اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا مجبوراً خاموش ہوتی تھیں؛ لیکن جب کچھ لوگ حج کے ارادہ سے مکہ روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے گھر رقعہ بھجوایا تواس وقت لوگوں کویقین ہوا کہ وہ واقعی ابوامیہ کی بیٹی ہیں، ابوامیہ چونکہ قریش کے نہایت مشہور اور معزز شخص تھے، اس لیے حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی گئیں۔
(مسندابن حنبل:۶/۳۰۷)

وفات ابوسلمہ رضی اللہ عنہا، نکاحِ ثانی اور خانگی حالات

کچھ زمانہ تک شوہر کا ساتھ رہا، حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا بڑے شہ سوار تھے، بدر اور احد میں شریک ہوئے، غزوۂ احد میں چند زخم کھائے، جن کے صدمہ سے جانبر نہ ہوسکے، جمادی الثانی سنہ۴ھ میں ان کا زخم پھٹا اور اسی صدمہ سے وفات پائی (زرقانی:۳/۲۷۳) حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں اور وفات کی خبرسنائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے مکان پرتشریف لائے، گھرمیں کہرام مچا تھا، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، ہائے غربت میں یہ کیسی موت ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبرکرو، ان کی مغفرت کی دعامانگو اور یہ کہو کہ خداوندا! ان سے بہتران کا جانشین عطاکر، اس کے بعد ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی لاش پرتشریف لائے اور جنازہ کی نماز نہایت اہتمام سے پڑھی گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹/تکبیریں کہیں، لوگوں نے نماز کے بعد پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)!آپ کوسہوتونہیں ہوا؟ فرمایا: یہ ہزار تکبیروں کے مستحق تھے، وفات کے وقت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دستِ مبارک سے آنکھیں بند کیں اور ان کے مغفرت کی دُعا مانگی۔

ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا حاملہ تھیں، وضع حمل کے بعد عدت گذرگئی توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا؛ لیکن حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے انکار کیا، ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کرپہنچے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے چند عذر ہیں (۱)میں سخت غیور عورت ہوں (۲)صاحب عیال ہوں (۳)میرا سن زیادہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب زحمتوں کوگوارا فرمایا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کواب عذر کیا ہوسکتا تھا؟ اپنے لڑکے سے (جن کا نام عمر تھا) کہا: اُٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح کرو۔
(سنن نسائی:۵۱۱)

شوال سنہ۴ھ کی آخیر تاریخوں میں یہ تقریب انجام پائی، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کوابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی موت سے جوشدید صدمہ ہوا تھا، خداوند تعالیٰ نے اس کوابدی مسرت سے تبدیل کردیا، سنن ابن ماجہ میں ہے:
فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُوسَلَمَةَ ذَكَرْتُ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي هَذِهِ فَأْجُرْنِي عَلَيْهَا فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ وَعِضْنِي خَيْرًا مِنْهَا قُلْتُ فِي نَفْسِي أُعَاضُ خَيْرًا مِنْ أَبِي سَلَمَةَ ثُمَّ قُلْتُهَا فَعَاضَنِي اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
(سنن ابن ماجہ، كِتَاب مَاجَاءَ فِي الْجَنَائِزِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِيبَةِ،حدیث نمبر:۱۵۸۷، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تومیں نے وہ حدیث یاد کی جس کووہ مجھ سے بیان کیا کرتے تھے اور میں نے دعاشروع کی توجب میں یہ کہنا چاہتی کہ خداوندا! مجھے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر جانشین دے تودل کہتا کہ ابوسلمہ رصی اللہ عنہ سے بہتر کون مل سکتا ہے؟ لیکن میں نے دعا کوپڑھنا شروع کیا توابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے جانشین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کودوچکیاں، گھڑا اور چمڑے کا تکیہ جس میں خرمے کی چھال بھری تھی عنایت فرمایا، یہی سامان اور بی بیوں کوبھی عنایت ہوا تھا۔
(مسند:۶/۲۹۵)

بہت حیادار تھیں، ابتداً جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکان پرتشریف لاتے توحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرطِ غیرت سے لڑکی (زینب) کوگود میں بٹھالیتیں، آپ یہ دیکھ کرواپس جاتے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کوجو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے، معلوم ہوا توبہت ناراض ہوئے اور لڑکی کوچھین لے گئے۔
(مسند:۲/۲۹۵)

لیکن بعد میں یہ بات کم ہوتی گئی اور جس طرح دوسری بیبیاں رہتی تھیں وہ بھی رہنے لگیں، نکاح سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کا ذکر کیا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوبڑا رشک ہوا، ابن سعد میں ان سے جوروایت منقول ہے اس میں یہ فقرہ بھی ہے:
حَزِنْتُ حُزْنًا شَدِيْدًا۔
ترجمہ: یعنی مجھ کوسخت غم ہوا۔
(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد:۸/۹۴، شاملہ، المؤلف:محمدبن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر: دارصادر،بيروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان سے بے حد محبت تھی؛ یہی وجہ ہے کہ (ایک موقع پرجب تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کوسوا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ عرض کرنا تھا توانہوں نے حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا ہی کواپنا سفیر بناکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، صحیح بخاری میں ہے کہ ازواجِ مطہرات کے دوگروہ تھے، ایک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا شامل تھیں، دوسرے میں حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور باقی ازواج تھیں؛ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوزیادہ محبوب رکھتے تھے اس لیے لوگ ان ہی کی باری میں ہدیے بھیجتے تھے، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی جماعت نے ان سے کہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح ہم بھی سب کی بھلائی کے خواہاں ہیں، اس بناپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے مکان میں بھی ہوں، لوگوں کوہدیہ بھیجنا چاہئے، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے یہ شکایت کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومرتبہ اعراض فرمایا، تیسری مرتبہ کہا: اُم سلمہ! عائشہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں مجھے اذیت نہ پہنچاؤ؛ کیونکہ ان کے سوا تم میں کوئی بیوی ایسی نہیں ہے، جس کے لحاف میں میرے پاس وحی آئی ہو
(بخاری:۱/۵۳۲)

حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَذَاكَ يَارَسُولَ اللَّهِ۔
(بخاری، كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا،بَاب مَنْ أَهْدَى إِلَى صَاحِبِهِ وَتَحَرَّى بَعْضَ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ،حدیث نمبر:۲۳۹۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اذیت پہنچانے سے پناہ مانگتی ہوں۔

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب باش ہوتے تواُن کا بچھونا (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانماز کے سامنے بچھتا تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے (اور یہ سامنے ہوتی تھیں)۔ (مسند:۶/۳۲۲)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں، حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور غلام ہیں، دراصل حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے غَام تھے، ان کوآزاد کیا تویہ شرط تھی کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہیں تم پران کی خدمت لازمی ہوگی۔
(مسند:۶/۳۱۶)

عام حالات

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے مشہور واقعاتِ زندگی یہ ہیں، غزوۂ خندق میں اگرچہ وہ شریک نہ تھیں؛ تاہم اس قدر قریب تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اچھی طرح سنتی تھیں، فرماتی ہیں کہ مجھے وہ وقت خوب یاد ہے کہ جب سینۂ مبارک غبار سے اٹا ہوا تھا اور آپ لوگوں کواینٹیں اُٹھا اُٹھا کردیتے اور اشعار پڑھ رہے تھے کہ دفعتاً عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ پرنظر پڑی فرمایا: (افسوس) ابن سمیہ! تجھ کوایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
(مسند:۶/۲۸۹)

محاصرۂ بنو قریظہ (سنہ۵ھ) میں یہود سے گفتگو کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کوبھیجا تھا، اثنائے مشورہ میں ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ کے اشارہ سے بتلایا کہ تم لوگ قتل کئے جاؤ گے؛ لیکن بعد میں اس کوافشائے راز سمجھ کراس قدر نادم ہوئے کہ مسجد کے ستون سے اپنے آپ کوباندھ لیا، چند دنوں تک یہی حالت رہی پھرتوبہ قبول ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں تشریف فرماتھے کہ صبح کومسکراتے ہوئے اُٹھے توبولیں: خدا آپ کوہمیشہ ہنسائے، اس وقت ہنسنے کا کیا سبب ہے؟ فرمایا: ابولبابہ رضی اللہ عنہ کی توبہ قبول ہوگئی، عرض کی توکیا میں ان کویہ مژدہ سنادوں، فرمایا: ہاں! اگرچاہو، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرہ کے دروازہ پرکھڑی ہوئیں اور پکار کرکہا: ابولبابہ! مبارک ہو، تمہاری توبہ قبول ہوگئی، اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ تمام مدینہ اُمنڈ آیا۔
(زرقانی:۲/۱۵۳۔ ابن سعد:۲/۵۴)

اسی سنہ میں آیتِ حجاب نازل ہوئی اس سے پیشترازواجِ مطہرات بعض دور کے اعزہ واقارب کے سامنے آیا کرتی تھیں، اب خاص خاص اعزہ کے سوا سب سے پردہ کرنے کا حکم ہوا، حضرت ابن اُم مکتوم قبیلہ قریش کے ایک معزز صحابی اور بارگاہِ نبوی کے مؤذن تھے اور چونکہ نابینا تھے، اس لیے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے حجروں میں آیا کرتے تھے، ایک دن آئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ان سے پردہ کرو! بولیں وہ تونابینا ہیں، فرمایا: تم تونابینا نہیں ہو، تم توانہیں دیکھتی ہو۔
(مسند:۶/۲۹۶)

صلح حدیبیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، صلح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں؛ لیکن لوگ اس قدر دل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اُٹھا، یہاں تک کہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، تین دفعہ بار بار کہنے پربھی ایک شخص آمادہ نہ ہوا (چونکہ معاہدہ کی تمام شرطیں بظاہر مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اس لیے تمام لوگ رنجیدہ اور غصہ سے بیتاب تھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی؛ انہوں نے کہا: آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ باہر نکل کرخود قربانی کریں اور احرام اُتارنے کے لیے بال منڈوائیں، آپ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے، اب جب لوگوں کویقین ہوگیا کہ اس فیصلہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی توسب نے قربانیاں کیں اور احرام اُتارا ہجوم کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے پرٹوٹا پڑتا تھا اور عجلت اس قدر تھی کہ ہرشخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا۔
(صحیح بخاری:۶/۳۸۰)

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہ کا یہ خیال عالم النفس کے ایک بڑے مسئلہ کوحل کرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور کی فطرت شناسی میں ان کوکس درجہ کمال حاصل تھا، امام الحرمین فرمایا کرتے تھے کہ صنفِ نازک کی پوری تاریخ اصابتِ رائے کی ایسی عظیم الشان مثال نہیں پیش کرسکتی۔
(زرقانی :۳/۲۷۲)

سنہ۹ھ میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کوتنبیہ کی توحضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی آئے وہ ان کی عزیز ہوتی تھیں، ان سے بھی گفتگو کی، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:
عَجَبًا لَكَ يَاابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ۔
(بخاری، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،بَاب {تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ}،حدیث نمبر:۴۵۳۲، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: عمررضی اللہ عنہ تم ہرمعاملہ میں دخل دینے لگے یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیتے ہو۔

چونکہ جواب نہایت خشک تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ چپ ہوگئے اور اُٹھ کرچلے آئے، رات کویہ خبر مشہور ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کوطلاق دے دی، صبح کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور تمام واقعہ بیان کیا، جب حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول نقل کیا توآپ مسکرائے۔

حجۃ الوداع میں جو سنہ۱۰ھ میں ہوا؛ اگرچہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا علیل تھیں، تاہم ساتھ آئیں، بنہان (غلام) اونٹ کی مہار تھامے تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب غلام مکاتب کے پاس اس قدر مال موجود ہوکہ وہ اس کوادا کرکے آزاد ہوسکتا ہوتواس سے پردہ ضروری ہوجاتا ہے (مسند:۶/۲۸۹،۳۰۸) طواف کے متعلق فرمایا کہ جب نمازِ فجر قائم ہو، تم اونٹ پرسوار ہوکر طواف کرنا؛ چنانچہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔
(بخاری:۱/۲۱۹،۲۲۰)

سنہ ۱۱ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علیل ہوئے، مرض نے طول کھینچا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں منتقل ہوگئے، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اکثرآپ کودیکھنے کے لیے جایا کرتی تھیں، ایک دن طبیعت زیادہ علیل ہوئی تواُم سلمہ رضی اللہ عنہا چیخ اُٹھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ یہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں (طبقات:۲/۱۳) ایک مرض میں اشتداد ہوا توازواج نے دواپلانی چاہی؛ چونکہ گوارا نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا؛ لیکن جب غشی طاری ہوگئی توحضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے دواپلادی (بخاری:۲/۶۴۱) (بعض روایتوں میں ہے کہ ان دونوں نے اس کا مشورہ دیا تھا) اسی زمانہ میں ایک روز حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جوحبشہ ہو آئی تھیں، وہاں کے عیسائی معبدوں کا (جوغالباً رومن کیتھولک گرجے ہونگے) اور ان کے مجسموں اور تصویروں کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا:ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مرتا ہے تواس کے مقبرہ کوعبادت گاہ بنالیتے ہیں اور اس کا بت بناکر اس میں کھڑاکرتے ہیں، قیامت کے روز خدائے عزوجل کی نگاہ میں یہ لوگ بدترین مخلوق ہونگے۔
(بخاری ومسلم)

وفات سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کان میں باتیں کی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسی وقت بے تابانہ پوچھنے لگیں؛ لیکن حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے توقف کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پوچھا۔
(طبقات:۲/۴۰)

سنہ۶۱ھ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں، نہایت پریشان ہیں، سراور ریشِ مبارک غبار آلود ہے، پوچھا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا حال ہے، ارشاد ہوا، حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل سے واپس آرہا ہوں، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیدار ہوئیں توآنکھوں سے آنسو جاری تھے (صحیح ترمذی:۲۲۴) اسی حالت میں زبان سے نکلا اہلِ عراق نے حسین رضی اللہ عنہ کوقتل کیا، خدا ان کوقتل کرےاور حسین رضی اللہ عنہ کوذلیل کیا خدا اُن لوگوں پرلعنت کرے۔
(مسند:۶/۲۹۸)

سنہ۶۳ھ میں واقعہ حرہ کے بعد شامی لشکر مکہ گیا، جہاں ابن زبیر رضی اللہ عنہ پناہ گزیں تھے؛ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ایسے لشکر کاتذکرہ فرمایا تھا بعض کوشبہ ہوا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: بولیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ایک شخص مکہ میں پناہ لے گا، اس کے مقابلہ میں جولشکر آئے گا بیابان میں وہیں دھنس جائے گا، اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا جولوگ جبراً شریک کئے گئے ہوں گے وہ بھی؟ فرمایا: ہاں! لیکن قیامت میں اپنی نیتوں کے مطابق اُٹھیں گے (حضرت ابوجعفر رضی اللہ عنہ) فرماتے تھے کہ یہ واقعہ مدینہ کے میدان میں پیش آئے گا۔
(مسلم:۲/۴۹۳،۴۹۴)

وفات

جس سال حرہ کا واقعہ ہوا (یعنی سنہ۶۳ھ) اسی سال حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے انتقال فرمایا اس وقت ۸۴/برس کا سن تھا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھی اور بقیع میں دفن کیا (زرقانی:۳/۲۷۶) اس زمانہ میں ولید بن عتبہ (ابوسفیان کا پوتا) مدینہ کا گورنر تھا؛ چونکہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی تھی کہ وہ میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھائے، اس لیے وہ جنگل کی طرف نکل گیا اور اپنے بجائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوبھیج دیا۔
(صحیح بخاری:۲/۷۶۴)

اولاد

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہاکے پہلے شوہر سے جواولاد ہوئی اُن کے نام یہ ہیں:

سلمہ رضی اللہ عنہا حبشہ میں پیدا ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا نکاح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے لڑکی امامہ سے کیا تھا، عمر رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اُن ہی نے کیا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں فارس اور بحرین کے حاکم تھے، دُرّہ، ان کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے، حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جوکہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن میں داخل تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہم نے سنا ہے کہ آپ دُرّہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اگرمیں نے اس کوپرورش نہ بھی کیا ہوتا توبھی وہ میرے لیے کسی طرح حلال نہ تھی؛ کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔
(بخاری:۲/۷۶۴)

زینب رضی اللہ عنہا پہلے برہ نام تھا؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رکھا۔
(زرقانی:۳/۲۷۲)

حلیہ

اصابہ میں ہے: وَكَانَتْ أُمِّ سَلْمَةَ مُوْصُوْفَة بِالْجَمَالِ الْبَارِعِ۔
(الإصابة في معرفة الصحابة،حرف السين المهملة،القسم الأول:۴/۹۶، شاملہ، موقع الوراق)
ترجمہ: یعنی حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نہایت حسین تھیں۔

ابن سعد نے روایت کی ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوان کے حسن کا حال معلوم ہوا توسخت پریشان ہوئیں؛ مگریہ واقدی کی روایت ہے جوچنداں قابل اعتبار نہیں، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے بال نہایت گھنے تھے۔
(مسند:۶/۲۸۹)

فضل وکمال

علمی حیثیت اگرچہ تمام ازواج بلند رتبہ تھیں، تاہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کا ان میں کوئی جواب نہ تھا؛ چنانچہ محمود بن لبید کہتے ہیں:
كَانَ أَزْوَاج النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْفظن مِن حَدِيْثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيْرًا وَلَامثلاً لِعَائِشَةَ وَأُمِّ سَلْمَةَ۔
(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد:۲/۳۷۵، شاملہ، المؤلف:محمدبن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر: دارصادر،بيروت)
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج احادیث کا مخزن تھیں؛ تاہم عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا ان میں کوئی حریف مقابل نہ تھا۔

مروان بن حکم ان سے مسائل دریافت کرتا اور اعلانیہ کہتا تھا:
كَيْفَ نَسْأَلُ أَحَدًا وَفِينَا أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
(مسنداحمد بن حنبل، حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۶۷۳۸، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة)
ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے ہوتے ہوئے ہم دوسروں سے کیوں پوچھیں؟۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دریائے علم ہونے کے باوجود ان کے دریائے فیض سے مستغنی نہ تھے (مسند:۶/۳۱۷) تابعین کرام کا ایک بڑا گروہ ان کے آستانۂ فضل پرسربرتھا، قرآن اچھا پڑھتیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل کے طرز پر پڑھ سکتی تھیں، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر قرأت کرتے تھے؟ بولیں ایک ایک آیت الگ الگ کرکے پڑھتے تھے اس کے بعد خود پڑھ کربتلایا۔
(مسند:۶/۳۰۰،۳۰۲)

حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے سوا ان کا کوئی حریف نہ تھا، ان سے ۳۷۸/روایتیں مروی ہیں، اس بناپر وہ محدثین صحابہ رضی اللہ عنہ کے تیسرے طبقہ میں شامل ہیں، حدیث سننے کا بڑا شوق تھا، ایک دل بال گوندوارہی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے زبانِ مبارک سے أَيُّهَا النَّاس (لوگو!) کا لفظ نکلا توفوراً بال باندھ کراُٹھ کھڑی ہوئیں اور کھڑے ہوکر پورا خطبہ سنا۔
(مسند:۶/۳۰۱)

مجتہد تھیں، صاحب اصابہ نے ان کے تذکرہ میں لکھا ہے: وَالْعَقْل البالغ وَالرَّأيِ الصَّائِبِ۔
(الإصابة في معرفة الصحابة،حرف السين المهملة،القسم الأول:۴/۹۶، شاملہ، موقع الوراق)
ترجمہ: یعنی وہ کامل العقل اور صائب الرائے تھیں۔

علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ ان کے فتاویٰ اگرجمع کئے جائیں توایک چھوٹا سارسالہ تیار ہوسکتا ہے (اعلام الموقعین:۱/۱۳) ان کے فتاویٰ کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ وہ عموماً متفق علیہ ہیں اور یہ ان کی دقیقہ رسی اور نکتہ سنجی کا کرشمہ ہے، ان کی نکتہ سنجی پرذیل کے واقعات شاہد ہیں:

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ عصر کے بعد دورکعت نماز پڑھا کرتے تھے، مروان نے پوچھا آپ یہ نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ بولے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھتے تھے؛ چونکہ انہوں نے یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ سے سنی تھی، مروان نے ان کے پاس تصدیق کے لیے آدمی بھیجا؛ انہوں نے کہا: مجھ کواُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث پہنچی ہے، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آدمی گیا اور یہ قول نقل کیا توبولیں:
يَغْفِرُ اللَّهُ لِعَائِشَةَ لَقَدْ وَضَعَتْ أَمْرِي عَلَى غَيْرِ مَوْضِعِهِ۔
(مسنداحمدبن حنبل، بَاقِي مُسْنَدِ الْأَنْصَارِ،حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۶۶۰۲، شاملہ،الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة)
ترجمہ:یعنی خدا عائشہ رضی اللہ عنہا کی مغفرت کرے؛ انہوں نے بات نہیں سمجھی۔
أَوَلَمْ أُخْبِرْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْهُمَا۔
(مسنداحمدبن حنبل، بَاقِي مُسْنَدِ الْأَنْصَارِ،حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۶۶۲۸، شاملہ،الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة)
ترجمہ:کیا میں نے اُن سے یہ نہیں کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے پڑھنے کی ممانعت فرمائی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ رمضان میں جنابت کا غسل فوراً صبح اُٹھ کرکرنا چاہئے؛ ورنہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ایک شحص نے جاکر حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا دونوں نے کہا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صائم ہوتے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سنا تورنگ فق ہوگیا، اس خیال سے رجوع کیا اور کہا کہ میں کیا کروں فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا تھا؛ لیکن ظاہر ہے کہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوزیادہ علم ہے (مسنداحمد:۶۳۰۶،۳۰۷) (اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا فتویٰ واپس لے لیا)۔
(مسنداحمد:۶/۳۰۶)

ایک مرتبہ چند صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اندرونی زندگی) کے متعلق کچھ ارشاد کیجئے، فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر وباطن یکساں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا، فرمایا: تم نے بہت اچھا کیا۔
(مسند احمد:۶/۳۰۹)

حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا جواب صاف دیتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ سائل کوتشفی ہو جائے، ایک دفعہ کسی شحص کومسئلہ بتایا وہ ان کے پاس سے اُٹھ کردوسری ازواج کے پاس گیا، سب نے ایک ہی جواب دیا؛ واپس آکر حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا کویہ خبر سنائی توبولیں نَعَمْ وَأَشْفِيكَ (ترجمہ: ذرا ٹھہرو! میں تمہاری تشفی کرنا چاہتی ہوں) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق حدیث سنی ہے۔
(مسنداحمدبن حنبل، بَاقِي مُسْنَدِ الْأَنْصَارِ،حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۶۵۹۰، شاملہ،الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة)

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کوحدیث وفقہ کے علاوہ اسرار کا بھی علم تھا اور یہ وہ فن تھا جس کے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ عالم خصوصی تھے، ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے توبولیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بعض صحابی ایسے ہیں جن کونہ میں اپنے انتقال کے بعد دیکھوں گا نہ وہ مجھ کودیکھیں گے، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ گھبراکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے یہ حدیث بیان کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور کہا: خدا کی قسم! سچ سچ کہنا کیا میں انہیں میں ہوں؟ حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا نہیں؛ لیکن تمہارے علاوہ میں کسی کومستثنیٰ نہیں کرونگی۔
(مسنداحمد:۶/۳۰۷)

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے جن لوگوں نے علم حدیث حاصل کیا ان کی ایک بڑی جماعت ہے ہم صرف چند ناموں پراکتفا کرتے ہیں: عبدالرحمن بن ابی بکر، اُسامہ بن زید، ہند بنت الحارث الفراسیۃ، صفیہ بنت شیبہ، عمر، زینب (اولاد حضرت ام سلمہ)، مصعب بن عبداللہ (برادرزادہ)، بنہان (غلام مکاتب)، عبداللہ بن رافع، نافع، شعبہ، پسرشعبہ، ابوبکیر، خیرۃ والدۂ حسن بصری، سلیمان بن یسار، ابوعثمان النہدی، حمید، ابوسلمہ، سعید بن مسیب، ابووائل، صفیہ بنت محصن، شعبی، عبدالرحمن، ابن حارث بن ہشام، عکرمہ، ابوبکر بن عبدالرحمن، عثمان بن عبداللہ ابن موہب، عروہ بن زبیر، کریب مولی ابن عباس، قبیصہ بن ذویب، نافع مولا ابن عمر یعلیٰ بن مملک رضی اللہ عنہم اجمعین۔

اخلاق وعادات

حضر ت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نہایت زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں، ایک مرتبہ ایک ہارپہنا جس میں سونے کا کچھ حصہ شامل تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیا تواس کوتوڑ ڈالا (مسنداحمد:۶/۳۱۹،۳۲۲) ہرمہینہ میں تین دن (دوشنبہ، جمعرات اور جمعہ) روزہ رکھتی تھیں (مسنداحمد:۶/۲۸۹) ثواب کی متلاشی رہتیں، ان کے پہلے شوہر کی اولاد ان کے ساتھ تھی اور وہ نہایت عمدگی سے ان کی پرورش کرتی تھیں، اس بناپرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھ کواس کا کچھ ثواب بھی ملے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
(بخاری:۱/۱۱۹۸)

اچھے کاموں میں شریک ہوتی تھیں، آیت تطہیر انہی کے گھر میں نازل ہوئی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ اور حسنین رضی اللہ عنھن کوبلاکر کمبل اڑھایا اور کہا: خدایا یہ میرے اہلِ بیت ہیں، ان سے ناپاکی کودور کراور ان کوپاک کر، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ دُعا سنی توبولیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوں ارشاد ہوا تم اپنی جگہ پرہو اور اچھی ہو (ترمذی:۵۳۰) امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی پابند تھیں، نمازکے اوقات میں بعض امراء نے تغیروتبدل کیا یعنی مستحب اوقات چھوڑ دیئے توحضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہانے اُن کوتنبیہ کی اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہر جلد پڑھا کرتے تھے اور تم عصر جلد پڑھتے ہو۔
(مسنداحمد:۶/۲۸۹)

ایک دن اُن کے بھتیجے نے دورکعت نماز پڑھی چونکہ سجدہ گاہ غبار آلودتھی، وہ سجدہ کرتے وقت مٹی جھاڑتے تھے، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے روکا کہ یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روش کے خلاف ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام نے ایک دفعہ ایسا کیا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: تَرِّبْ وَجْهَكَ لِلَّهِ ترجمہ:یعنی تیرا چہرہ خدا کی راہ میں غبار آلود ہو۔
(مسنداحمدبن حنبل، بَاقِي مُسْنَدِ الْأَنْصَارِ،حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۶۷۸۷، شاملہ،الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة)

فیاض تھیں اور دوسروں کوبھی فیاضی کی طرف مائل کرتی تھیں، ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے آکر کہا: اماں! میرے پاس اس قدر مال جمع ہوگیا ہے کہ اب بربادی کا خوف ہے، فرمایا: بیٹا! اس کوخرچ کرو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہت سے صحابہ ایسے ہیں، جومجھ کومیری موت کے بعد پھرکبھی نہ دیکھیں گے۔
(مسنداحمد:۶/۲۹۰)

ایک مرتبہ چند فقراء جن میں عورتیں بھی تھیں، ان کے گھر آئے اور نہایت الحاح سے سوال کیا، ام الحسن بیٹھی تھیں؛ انہوں نے ڈانٹا؛ لیکن حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہم کواس کا حکم نہیں ہے، اس کے بعد لونڈی سے کہا کہ ان کوکچھ دے کررخصت کرو کچھ نہ ہو توایک ایک چھوہارا ان کے ہاتھ پررکھ دو۔
(استیعاب:۲/۸۰۳)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کوجومحبت تھی اس کا یہ اثر تھا کہ آپ کے موئے مبارک تبرکاً رکھ چھوڑے تھے، جن کی وہ لوگوں کوزیارت کراتی تھیں (مسنداحمد:۶/۲۹۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان سے اس قدر محبت تھی کہ ایک مرتبہ انہوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا کیا سبب ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں توآپ منبرپرتشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی:
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔
(الأحزاب:۳۵)

مناقب

ایک مرتبہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں، حضرت جبرئیل آئے اور باتیں کرتے رہے، ان کے جانے کے بعد آپ نے پوچھا: اِن کوجانتی ہو؟ بولیں دحیہ تھے؛ لیکن جب آپ نے اس واقعہ کواور لوگوں سے بیان کیا تواس وقت معلوم ہوا کہ وہ جبرئیل تھے (مسلم:۲/۲۴۱، مطبوعہ مصر) (غالباً یہ نزولِ حجاب سے قبل کا واقعہ ہے)۔

Mamin Mirza
08-30-2014, 10:52 AM
Jazak Allah..................................!!!

BDunc
08-30-2014, 03:29 PM
MAsha Allah....

Admin
09-01-2014, 10:25 AM
Thanks FOr Sharing Brother Keep It up