intelligent086
08-30-2014, 01:18 AM
نام ونسب
عائشہ نام، صدیقہ اور حمیرا لقب، ام عبداللہ کنیت، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں، ماں کا نام زینب تھا، ام رومان کنیت تھی اور قبیلہ غنم بن مالک سے تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت کے چار برس بعد شوال کے مہینہ میں پیداہوئیں، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کاشانہ وہ برجِ سعادت تھا، جہاں خورشید اسلام کی شعاعیں سب سے پہلے پرتوفگن ہوئیں، اس بناپر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسلام کی ان برگزیدہ شخصیتوں میں ہیں جن کے کانوں نے کبھی کفروشرک کی آواز نہیں سنی، خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کوپہچانا اُن کومسلمان پایا۔
(بخاری:۱/۲۵۲)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کووائل کی بیوی نے دودھ پلایا، وائل کی کنیت ابوالفقیس تھی، وائل کے بھائی افلح، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے وہ ان کے سامنے آتی تھیں (بخاری:۱/۳۲۰) رضاعی بھائی بھی کبھی کبھی ملنے آیا کرتا تھا۔
(بخاری:۱/۳۶۱)
نکاح
تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن میں یہ شرف صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوحاصل ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنواری بیوی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے وہ جبیربن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب ہوئی تھیں؛ لیکن جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد خولہ بنتِ حکیم رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اُمِ رومان سے کہا اور انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا توچونکہ یہ ایک قسم کی وعدہ خلافی تھی، بولے کہ جبیر بن مطعم سے وعدہ کرچکا ہوں؛ لیکن مطعم نے خود اس بناپرانکار کردیا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کے گھر میں گئیں توگھر میں اسلام کا قدم آجائے گا بہرِحال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خولہ کے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کردیا، پانچ سودرہم مہرقرار پایا، یہ سنہ۱۰نبوی کا واقعہ ہے، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چھ برس کی تھیں، یہ نکاح اسلام کی سادگی کی حقیقی تصویر تھا، عطیہ رضی اللہ عنہا اس کا واقعہ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں، ان کی انا آئی اور ان کولے گئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آکرنکاح پڑھادیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود کہتی ہیں کہ جب میرا نکاح ہوا تومجھ کوخبرتک نہ ہوئی، جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی، تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہوگیا، اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا۔
(طبقات ابن سعد:۸/۴۰)
نکاح کے بعد مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام ۳/سال تک رہا، سنہ۱۳نبوی میں آپ نے ہجرت کی توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ساتھ تھے اور اہل وعیال کودشمنوں کے نرغہ میں چھوڑ آئے تھے، جب مدینہ میں اطمینان ہوا توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اریقط کوبھیجا کہ اُم رومان رضی اللہ عنہا، اسماء رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کولے آئیں، مدینہ میں آکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سخت بخار میں مبتلا ہوئیں، اشتداد مرض سے سرکے بال جھڑگئے (صحیح بخاری، باب الحجرۃ) صحت ہوئی تواُم رومان کورسم عروسی ادا کرنے کا خیال آیا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر۹/سال کی تھی، سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں کہ اُم رومان نے آواز دی، ان کواس واقعہ کی خبر تک نہ تھی، ماں کے پاس آئیں؛ انہوں نے منہ دھویا، بال درست کیئے، گھر میں لے گئیں، انصار کی عورتیں انتظار میں تھیں، یہ گھر میں داخل ہوئیں توسب نے مبارک باد دی، تھوڑی دیر کے بعد خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے (صحیح بخاری، تزویج عائشہ رضی اللہ عنہا وسیرۃ النبی مجلد۲) شوال میں نکاح ہوا تھا اور شوال ہی میں یہ رسم ادا کی گئی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے عرب کے بعض بیہودہ خیالات میں اصلاح ہوئی
(۱)عرب منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہیں کرتے تھے؛ اسی بناپرجب خولہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ ظاہر کیا توانہوں نے حیرت سے کہا کہ کیا یہ جائز ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی ہے؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَنْتَ أَخٌ فِیْ الْإِسْلَامِ تم توصرف مذہبی بھائی ہو
(۲)اہلِ عرب شوال میں شادی نہیں کرتے تھے، زمانہ قدیم میں اس مہینہ میں طاعون آیا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئیں۔
عام حالات
غزوات میں سے صرف غزوۂ اُحد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرکت کا پتہ چلتا ہے، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُمِ سلیم رضی اللہ عنہ کودیکھا کہ مشک بھربھر کرلاتی تھیں اور زخمیوں کوپانی پلاتی تھیں۔
(بخاری:۲/۵۸۱)
غزوۂ مصطلق سنہ۵ھ کاواقعہ ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ تھیں، واپسی میں ان کا ہارکہیں گرگیا، پورے قافلہ کواترنا پڑا ، نماز کا وقت آیا توپانی نہ ملا، تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پریشان تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرہوئی اور تیمم کی آیت نازل ہوئی، اس اجازت سے تمام لوگ خوش ہوئے، اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے آل ابوبکر رضی اللہ عنہ! تم لوگوں کے لیے سرمایۂ برکت ہو؛ اسی لڑائی میں واقعہ افک پیش آیا، یعنی منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پرتہمت لگائی احادیث اور سیرکی کتابوں میں اس واقعہ کونہایت تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے؛ لیکن جس واقعہ کی نسبت قرآن مجید میں صاف مذکور ہے کہ سننے کے ساتھ لوگوں نے یہ کیوں نہیں کہدیا کہ بالکل افترا ہے، اس کوتفصیل کے ساتھ لکھنے کی چندا ضرورت نہیں۔
سنہ۹ھ میں تحریم اور ایلاء وتخییر کا واقعہ پیش آیا اور واقعۂ تحریم کی تفصیل حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں آئے گی؛ البتہ واقعہ ایلا کی تفصیل اس مقام پرکی جاتی ہے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زاہدانہ زندگی بسرفرماتے تھے، دودو مہینے گھرمیں آگ نہیں جلتی تھی، آئے دن فاقے ہوتے رہتے تھے، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن گوشرفِ صحبت کی برکت سے تمام ابنائے جنس سے ممتاز ہوگئی تھیں؛ تاہم بشریت بالکل معدوم نہیں ہوسکتی تھی، خصوصاً وہ دیکھتی تھیں کہ فتوحاتِ اسلام کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے اور غنیمت کا سرمایہ اس قدر پہنچ گیا ہے کہ اس کا ادنی حصہ بھی ان کی راحت وآرام کے لیے کافی ہوسکتا ہے، ان واقعات کا اقتضا تھا کہ ان کے صبروقناعت کا جام لبریز ہوجاتا۔
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ بیچ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ادھر اُدھر بیویاں بیٹھی ہیں اور توسیع نفقہ کا تقاضا ہے، دونوں اپنی صاحبزادیوں کی تنبیہ پرآمادہ ہوگئے؛ لیکن انہوں نے عرض کی کہ ہم آئندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوزائد مصارف کی تکلیف نہ دیں گے۔
دیگرازواج اپنے مطالبہ پرقائم رہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سکون خاطر میں یہ چیز اس قدر خلل انداز ہوئی کہ آپ نے عہد فرمایا کہ ایک مہینہ تک ازواجِ مطہرات سے نہ ملیں گے اتفاق یہ کہ اسی زمانہ میں آپ گھوڑے سے گرپڑے اور ساقِ (پنڈلی) مبارک پرزخم آیا، آپ نے بالاخانے پرتنہا نشینی اختیار کی، واقعات کے قرینہ سے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ نے تمام ازواج کوطلاق دیدی؟ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے ازواج کوطلاق دیدی؟ توآپ نے فرمایا: نہیں، یہ سن کرحضرت عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے۔
جب ایلا کی مدت یعنی ایک مہینہ گذرچکا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاخانہ سے اُترآئے، سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے وہ ایک ایک دن گنتی تھیں، بولیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے ایک مہینے کے لیے عہد فرمایا تھا، ابھی توانتیس ہی دن ہوئے ہیں، ارشاد ہوا مہینہ کبھی انتیس کا بھی ہوتا ہے، اس کے بعد آیت تخییر نازل ہوئی، اس آیت کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا گیا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کومطلع فرمادیں کہ دوچیزیں تمہارے سامنے ہیں، دنیا اور آخرت؛ اگرتم دنیا چاہتی ہوتوآؤ میں تم کورخصتی جوڑے دیکر عزت واحترام کے ساتھ رخصت کردوں اور اگرتم خدا اور رسول اور ابدی راحت کی طلب گار ہوتوخدانے نیکوکاروں کے لیے بڑا اجر مہیا کررکھا ہے؛ چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان تمام معاملات میں پیش پیش تھیں، آپ نے ان کوارشادِ الہٰی سے مطلع فرمایا، انہوں نے کہا: میں سب کوچھوڑ کر خدا اور رسول کولیتی ہوں، تمام اورازواج نے بھی یہی جواب دیا۔
(صحیح بخاری:۲/۷۹۲۔ صحیح مسلم، باب الایلاء)
ربیع الاوّل سنہ۱۱ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی ۱۳/ دن علیل رہے، جن میں ۸/دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں اقامت فرمائی، خلقِ عمیم کی بناپرازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے صاف طورپراجازت نہیں طلب کی بلکہ پوچھا کہ کل میں کس کے گھررہوں گا؟دوسرادن (دوشنبہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام فرمانے کا تھا، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن نے مرضی اقدس سمجھ کرعرض کی کہ آپ جہاں چاہیں قیام فرمائیں، ضعف اس قدر زیادہ ہوگیا تھا کہ چلانہیں جاتا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ دونوں بازوتھام کربہ مشکل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہجرہ میں لائے۔
وفات سے پانچ روز پہلے (جمعرات کو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویاد آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ اشرفیاں رکھوائی تھیں، دریافت فرمایا کہ عائشہ! وہ اشرفیاں کہاں ہیں؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے بدگمان ہوکر ملے گا، جاؤ ان کوخدا کی راہ میں خیرات کردو۔
(مسندابن حنبل:۶/۴۹)
جس دن وفات ہوئی (یعنی دوشنبہ کے روز) بظاہر طبیعت کوسکون تھا لیکن دن جیسے جیسے چڑھتا جاتا تھا، آپ پرغشی طاری ہوتی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، آپ جب تندرست تھے توفرمایا کرتے تھے کہ پیغمبروں کواختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خواہ موت کوقبول کریں یاحیاتِ دنیا کوترجیح دیں، اس حالت میں اکثر آپ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے رہے مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ (النساء:۶۹) اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى وہ سمجھ گئیں کہ اب صرف رفاقتِ الہٰی مطلوب ہے۔
وفات سے ذراپہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ خدمتِ اقدس میں آئے آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سینے پرسرٹیک کرلیٹے تھے، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں مسواک تھی، مسواک کی طرف نظرجماکر دیکھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھیں کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں، عبدالرحمن سے مسواک لےکر دانتوں سے نرم کی اور خدمتِ اقدس میں پیش کی، آپ نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فخریہ کہا کرتی تھیں کہ تمام بیویوں میں مجھی کویہ شرف حاصل ہوا کہ آخروقت میں بھی میرا جھوٹا آپ نے منہ میں لگایا۔
اب وفات کا وقت قریب آرہا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کوسنبھالے بیٹھی تھیں کہ دفعۃً بدن کابوجھ معلوم ہوا، دیکھا توآنکھیں پھٹ کرچھت سے لگ گئیں تھیں اور روحِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ قدس میں پرواز کرگئی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آہستہ سے سرِاقدس تکیہ پررکھ دیا اور رونے لگیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ابواب مناقب کا سب سے زریں باب یہ ہے کہ ان کے حجرہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن بننا نصیب ہوا اور نعشِ مبارک اسی حجرہ کے ایک گوشہ میں سپردِ خاک کی گئی؛ چونکہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے لیے خدا نے دوسری شادی ممنوع قرار دی تھی، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ۴۸/سال بیوگی کی حالت میں بسر کئے، اس زمانہ میں ان کی زندگی کا مقصد وحیدقرآن وحدیث کی تعلیم تھا، جس کا ذکر آئندہ آئے گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوبرس بعد سنہ۱۳ھ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے یہ سایۂ شفقت بھی باقی نہ رہا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے؛ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جس قدر دلجوئی کی وہ خود اس کواس طرح بیان فرماتی ہیں، ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ پربڑے بڑے احسانات کئے (مستدرک حاکم:۴/۸) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے لیے دس دس ہزار سالانہ وظیفہ مقرر فرمایا تھا؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وظیفہ بارہ ہزار تھا، جس کی وجہ یہ تھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسب سے زیادہ محبوب تھیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ میں مقیم تھیں، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے جاکران کوواقعات سے آگاہ کیا تودعوتِ اصلاح کے لیے بصرہ گئیں اور وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ پیش آئی، جوجنگِ جمل کے نام سے مشہور ہے، جمل اونٹ کوکہتے ہیں چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک اونٹ پرسوار تھیں اور اس نے اس معرکہ میں بڑی اہمیت حاصل کی تھی اس لیے یہ جنگ بھی اسی کی نسبت سے مشہور ہوگئی، یہ جنگ اگرچہ بالکل اتفاقی طور پر پیش آگئی تھی تاہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کواس کا ہمیشہ افسوس رہا، بخاری میں ہے کہ وفات کے وقت انہوں نے وصیت کی کہ مجھے روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ساتھ دفن نہ کرنا بلکہ بقیع میں اور ازواج کے ساتھ دفن کرنا؛ کیونکہ میں نے آپ کے بعد ایک جرم کیا ہے (کتاب الجنائز ومستدرک حاکم:۴/۸)ابن سعد میں ہے کہ وہ جب یہ آیت پڑھتی تھیں وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّترجمہ:اے پیغمبر کی بیویو! اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو، تواس قدر روتی تھیں کہ آنچل ترہوجاتا تھا۔
(طبقات ابنِ سعد:۲/۵۹)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھارہ برس اور زندہ رہیں اور یہ تمام زمانہ سکون اور خاموشی میں گذرا۔
وفات
امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا اخیرزمانہ خلافت تھا کہ رمضان سنہ۵۸ھ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رحلت فرمائی، اس وقت ۶۷/سرسٹھ برس کا سن تھا اور وصیت کے مطابق جنۃ البقیع میں رات کے وقت مدفون ہوئیں، قاسم بن محمدرضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن ابی عتیق رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن زبیررضی اللہ عنہ نے قبر میں اُتارا، اس وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، مروان بن حکم کی طرف سے مدینہ کے حاکم تھے، اس لیے انہوں نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔
اولاد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی، ابن الاعرابی نے لکھا ہے کہ ایک ناتمام بچہ ساقط ہوا تھا، اس کا نام عبداللہ تھا اور اسی کے نام پرانہوں نے کنیت رکھی تھی؛ لیکن یہ قطعاً غلط ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبداللہ ان کے بھانجے عبداللہ بن زبیر کے تعلق سے تھی، جن کوانہوں نے متبنیٰ بنایا تھا۔
حلیہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رواور صاحب جمال تھیں، رنگ سرخ وسفید تھا۔
فضل وکمال
علمی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کونہ صرف عورتوں پرنہ صرف دوسری اُمہات المؤمنین پر نہ صرف خاص خاص صحابیوں پربلکہ باستثناء سے چند تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین پرفوقیت حاصل تھی، جامع ترمذی میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
مَاأَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّاوَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا۔
(ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر:۳۸۱۸، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:ہم کوکبھی کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جس کوہم نے عائشہ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات نہ ملے ہوں۔
امام زہری رحمہ اللہ جوسرخیل تابعین میں سے تھے، فرماتے ہیں:
كَانَتْ عَائشَةَ أَعلم الناس يسألها الأكابر مِنْ أَصْحَاب رَسُوْل اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے اکابر صحابہ ان سے پوچھا کرتے تھے۔
عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
مَارَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَلَابِفَرَيْضَة وَلَابِحَلَالِ وَلَابِحَرَامٍ وَلَابِفِقْهٍ، وَلَابِطب، وَلَابِشَعْرٍ، وَلَابِحَدِيْثِ الْعَرَبِ وَلَابِنَسْبٍ مِن عَائشَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالىٰ عَنْهَا۔
(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد:۱۱/۱۷۹، شاملہ، موقع يعسوب)
ترجمہ:قرآن، فرائض، حلال وحرام، فقہ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم، عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کونہیں دیکھا۔
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک شہادت ہے:
لَوْجمع علم الناس كلهم، ثُمَّ علم أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَانَتْ عَائِشَةَ أَوْسَعَهُمْ عِلْمًا۔
(المستدرک،كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم،ذكر الصحابيات من أزواج رسول اللهﷺ وغيرهن،حدیث نمبر:۶۸۱۲، شاملہ،موقع جامع الحديث)
ترجمہ:اگرتمام مردوں کا اور اُمہات المؤمنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جائے توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم وسیع ترہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار مجتہدینِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے اور اس حیثیت سے وہ اس قدربلند ہیں کہ بے تکلف ان کا نام حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ لیا جاسکتا ہے، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فتوے دیتی تھیں اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم پرانہو ں نے جودقیق اعتراضات کئے ہیں ان کوعلامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ایک رسالہ میں جمع کردیا ہے، اس رسالہ کا نام عین الاصابہ فی مااستدرکتہ عائشہ رضی اللہ عنہا علی الصحابہ ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکثرینِ صحابہ میں داخل ہیں، ان سے ۲۲۱۰/ حدیثیں مروی ہیں، جن میں ۱۷۴/حدیثوں پرشیخین نے اتفاق کیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے منفرداً ان سے ۵۴/حدیثیں روایت کی ہیں ۶۸/حثیثوں میں امام مسلم منفرد ہیں، بعض لوگوں کا قول ہے کہ احکامِ شرعیہ میں سے ایک چوتھائی ان سے منقول ہے، علم کلام کے متعدد مسائل ان کی زبان سے ادا ہوئے ہیں؛ چنانچہ روایت باری، علم غیب، عصمتِ انبیاء، معراج، ترتیب خلافت اور سماع موتیٰ وغیرہ کے متعلق انہوں نے جوخیالات ظاہر کئے ہیں، انصاف یہ ہے کہ ان میں ان کی دقت نظر کا پلہ بھاری نظر آتا ہے، علم اسرار الدین کے متعلق بھی ان سے بہت سے مسائل مروی ہیں؛ چنانچہ قرآن مجید کی ترتیب نزول، مدینہ میں کامیابی، اسلام کے اسباب، غسل جمعہ، نمازِ قصر کی علت، صوم عاشورہ کا سبب، حج کی حقیقت اور ہجرت کے معنی کی انہوں نے خاص تشریحیں کی ہیں، طب کے متعلق وہی عام معلومات تھیں، جوگھر کی عورتوں کوعام طورپر ہوتی ہیں؛ البتہ تاریخِ عرب میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں، عرب جاہلیت کے حالات ان کے رسم ورواج، ان کے انساب اور ان کی طرزِ معاشرت کے متعلق انہوں نے بعض ایسی باتیں بیان کی ہیں، جودوسری جگہ نہیں مل سکتیں، اسلامی تاریخ کے متعلق بھی بعض اہم واقعات ان سے منقول ہیں، مثلاً آغازِ وحی کی کیفیت، ہجرت کے واقعات، واقعہ افک، نزولِ قرآن اور اس کی ترتیب، نماز کی صورتیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے حالات، غزوۂ بدر، اُحد، خندق، قریظہ کے واقعات، غزوۂ ذات الرقاع میں نمازِ خوف کی کیفیت، فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت، حجۃ الوداع کے ضروری حالات، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وعادات، خلافتِ صدیقی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کا دعویٰ میراث، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ملالِ خاطر اور پھربیعت کے تمام مفصل حالات ان ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوئے ہیں۔
ادبی حیثیت سے وہ نہایت شیریں کلام اور فصیح اللسان تھیں، ترمذی میں موسیٰ ابن طلحہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
مَارَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ۔
(ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر:۳۸۱۹، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا۔
اگرچہ احادیث میں روایت بالمعنی کا عام طور پررواج ہے اور روایت باللفظ کم اور نہایت کم ہوتی ہے تاہم جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اصلی الفاظ محفوظ رہ گئے ہیں، پوری حدیث میں جان پڑگئی ہے، مثلاً آغازِ وحی کے سلسلہ میں فرماتی ہیں:
لَايَرَى رُؤْيَا إِلَّاجَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ۔
(بخاری، بَابُ بدْءِ الْوحْيِ،حدیث نمبر:۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:آپ جوخواب دیکھتے تھے سپیدۂ سحر کی طرح نمودار ہوجاتا تھا۔
آپ پرجب وحی کی کیفیت طاری ہوتی توجبینِ مبارک پرعرق آجاتا تھا اِس کواس طرح ادا کرتی ہیں:
مِثْلُ الْجُمَانِ۔
ترجمہ: پیشانی پرموتی ڈھلکتے تھے۔
(بخاری، كِتَاب الشَّهَادَاتِ،بَاب تَعْدِيلِ النِّسَاءِ بَعْضِهِنَّ بَعْضًا،حدیث نمبر:۲۴۶۹، شاملہ، موقع الإسلام)
واقعہ افک میں انہیں راتوں کونیند نہیں آتی تھی، اس کواس طرح بیان فرماتی ہیں:
وَلَاأَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ۔
ترجمہ:میں نے سرمۂ خواب نہیں لگایا۔
(بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب حَدِيثِ الْإِفْكِ،حدیث نمبر:۳۸۲۶، شاملہ، موقع الإسلام)
صحیح بخاری میں ان کے ذریعہ سے ام زرع کا جوقصہ مذکور ہے، وہ جان ادب ہے اور اہلِ ادب نے اس کی مفصل شرحیں اور حاشیے لکھے ہیں، خطابت کے لحاظ سے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سواتمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں ممتاز تھیں جنگ جمل میں انہوں نے جوتقریریں کی ہیں، وہ جوش اور زور کے لحاظ سے اپنا جواب نہیں رکھتیں، ایک تقریر میں فرماتی ہیں:
لوگو! خاموص، خاموش، تم پرمیرامادری حق ہے، مجھے نصیحت کی عزت حاصل ہے، سوا اس شحص کے جوخدا کا فرمانبردار نہیں ہے، مجھ کوکوئی الزام نہیں دے سکتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پرسررکھے ہوئے وفات پائی ہے، میں آپ کی محبوب ترین بیوی ہوں، خدا نے مجھ کودوسروں سے ہرطرح محفوظ رکھا اور میری ذات سے مؤمن ومنافق میں تمیز ہوئی اور میرے ہی سبب سے تم پرخدا نے تیمم کا حکم نازل فرمایا؛ پھرمیرا باپ دنیا میں تیسرا مسلمان ہے اور غارِ حرا میں دوکا دوسرا تھا اور پہلا شخص تھا جوصدیق کے لقب سے مخاطب ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خوش ہوکر اور اس کوطوق خلافت پہناکر وفات پائی اس کے بعد جب مذہب اسلام کی رسی ہلنی ڈلنے لگی تومیرا ہی باپ تھا جس نے اس کے دونوں سرے تھام لیے،جس نے نفاق کی باگ روک دی، جس نے ارتداد کاسرچشمہ خشک کردیا، جس نے یہودیوں کی آتش افروزی سرد کی، تم لوگ اس وقت آنکھیں بند کئے غدروفتنہ کے منتظر تھے اور شوروغوغاپر گوش برآواز تھے، اس نے شگاف کوبرابر کیا، بیکار کودرست کیا، گرتوں کوسنبھالا، دلوں کی مدفون بیماریوں کودور کیا، جوپانی سے سیراب ہوچکے تھے، ان کوتھان تک پہنچادیا، جوپیاسے تھے، ان کوگھاٹ پرلے آیا اور جوایک بار پانی پی چکے تھے انہیں دوبارہ پلایا جب وہ نفاق کا سرکچل چکا اور اہلِ شرک کے لیے آتشِ جنگ مشتعل کرچکا اور تمہارے سامان کی گھٹری کوڈوری سے باندھ چکا توخدا نے اُسے اُٹھالیا..............۔
ہاں میں سوال کا نشانہ بن گئی ہوں کہ کیوں فوج لےکرنکلی؟ میرا مقصد اس سے گناہ کی تلاش اور فتنہ کی جستجو نہیں ہے، جس کومیں پامال کرنا چاہتی ہوں جوکچھ کہہ رہی ہوں سچائی اور انصاف کے ساتھ تنبیہ اور اتمامِ حجت کے لیے۔
(عقدالفرید، باب الخطیب وذکرواقعہ جمل:۱۴)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گوشعر نہیں کہتی تھیں، تاہم شاعرانہ مذاق اس قدر عمدہ پایا تھا کہ حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ عنہ جوعرب کے مسلم الثبوت شاعر تھے، ان کی خدمت میں اشعار سنانے کے لیے حاضر ہوتے تھے، امام بخاری نے ادب المفرد میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوکعب بن مالک کاپورا قصیدہ یاد تھا، اس قصیدہ میں کم وبیش چالیس شعر تھے، کعب کے علاوہ ان کودیگر جاہلی اور اسلامی شعراء کے اشعار بھی بکثرت یاد تھے، جن کووہ مناسب موقعوں پرپڑھا کرتی تھیں؛ چنانچہ وہ احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف ان علوم کی ماہر تھیں؛ بلکہ دوسروں کوبھی ماہربنادیتی تھیں؛ چنانچہ ان کے دامنِ تربیت میں جولوگ پرورش پاکر نکلے؛ اگرچہ ان کی تعداد دوسو کے قریب ہے؛ لیکن ان میں جن کوزیادہ قرب واختصاص حاصل تھا، وہ حسب ذیل ہیں:
عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، مسروق، عمرۃ، صفیہ بنتِ شیبہ، عائشہ بنت طلحہ، معاوۃ عدویہ۔
اخلاق وعادات
اخلاقی حیثیت سے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بلند مرتبہ رکھتی تھیں، وہ نہایت قانع تھیں، غیبت سے احتراز کرتی تھیں، احسان کم قبول کرتیں؛ اگرچہ خودستائی ناپسند تھی، تاہم نہایت خوددار تھیں، شجاعت اور دلیری بھی ان کاخاص جوہر تھا۔
ان کا سب سے نمایاں وصف جود وسخا تھا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کونہیں دیکھا، ایک مرتبہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے توشام ہوتے ہوتے سب خیرات کردیئے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا، اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا، لونڈی نے عرض کی کہ افطار کے لیے کچھ نہیں ہے، فرمایا پہلے سے کیوں نہ یاد دلایا۔
(مستدرک حاکم:۴/۱۳)
ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جوان کے متبنیٰ فرزند تھے ان کی فیاضی دیکھ کرگھبراگئے اور کہا کہ اب ان کا ہاتھ روکنا چاہئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کومعلوم ہوا توسخت برہم ہوئیں اور قسم کھائی کہ ان سے بات نہ کریں گی؛ چنانچہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ مدت تک معتوب رہے اور بڑی دقت سے ان کا غصہ فروہوا۔
(صحیح بخاری، باب مناقب قریش)
نہایت خاشع، متضرع اور عبادت گذار تھیں، چاشت کی نماز برابر پڑھتیں فرماتی تھیں کہ اگرمیرا باپ بھی قبرسے اُٹھ آئے اور مجھ کومنع کرے تب بھی میں باز نہ آؤں گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ راتوں کواُٹھ کرتہجد کی نماز ادا کرتی تھیں اور اس کی اس قدر پابند تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب کبھی یہ نماز قضا ہوجاتی تونمازِ فجر سے پہلے اُٹھ کر اس کوپڑھ لیتی تھیں، رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتی تھیں، ذکوان ان کا غلام امامت کرتا اور وہ مقتدی ہوتیں؛ اکثر روزے رکھا کرتی تھیں، حج کی بھی شدت سے پابند تھیں اور ہرسال اس فرض کوادا کرتی تھیں، غلاموں پرشفقت کرتیں اور ان کوخرید کرآزاد کرتی تھیں، ان کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ۶۷/ہے۔
(شرح بلوغ المرام، کتاب العتق)
عائشہ نام، صدیقہ اور حمیرا لقب، ام عبداللہ کنیت، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں، ماں کا نام زینب تھا، ام رومان کنیت تھی اور قبیلہ غنم بن مالک سے تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت کے چار برس بعد شوال کے مہینہ میں پیداہوئیں، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کاشانہ وہ برجِ سعادت تھا، جہاں خورشید اسلام کی شعاعیں سب سے پہلے پرتوفگن ہوئیں، اس بناپر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسلام کی ان برگزیدہ شخصیتوں میں ہیں جن کے کانوں نے کبھی کفروشرک کی آواز نہیں سنی، خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کوپہچانا اُن کومسلمان پایا۔
(بخاری:۱/۲۵۲)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کووائل کی بیوی نے دودھ پلایا، وائل کی کنیت ابوالفقیس تھی، وائل کے بھائی افلح، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے وہ ان کے سامنے آتی تھیں (بخاری:۱/۳۲۰) رضاعی بھائی بھی کبھی کبھی ملنے آیا کرتا تھا۔
(بخاری:۱/۳۶۱)
نکاح
تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن میں یہ شرف صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوحاصل ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنواری بیوی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے وہ جبیربن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب ہوئی تھیں؛ لیکن جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد خولہ بنتِ حکیم رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اُمِ رومان سے کہا اور انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا توچونکہ یہ ایک قسم کی وعدہ خلافی تھی، بولے کہ جبیر بن مطعم سے وعدہ کرچکا ہوں؛ لیکن مطعم نے خود اس بناپرانکار کردیا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کے گھر میں گئیں توگھر میں اسلام کا قدم آجائے گا بہرِحال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خولہ کے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کردیا، پانچ سودرہم مہرقرار پایا، یہ سنہ۱۰نبوی کا واقعہ ہے، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چھ برس کی تھیں، یہ نکاح اسلام کی سادگی کی حقیقی تصویر تھا، عطیہ رضی اللہ عنہا اس کا واقعہ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں، ان کی انا آئی اور ان کولے گئی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آکرنکاح پڑھادیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود کہتی ہیں کہ جب میرا نکاح ہوا تومجھ کوخبرتک نہ ہوئی، جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی، تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہوگیا، اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا۔
(طبقات ابن سعد:۸/۴۰)
نکاح کے بعد مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام ۳/سال تک رہا، سنہ۱۳نبوی میں آپ نے ہجرت کی توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ساتھ تھے اور اہل وعیال کودشمنوں کے نرغہ میں چھوڑ آئے تھے، جب مدینہ میں اطمینان ہوا توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اریقط کوبھیجا کہ اُم رومان رضی اللہ عنہا، اسماء رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کولے آئیں، مدینہ میں آکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سخت بخار میں مبتلا ہوئیں، اشتداد مرض سے سرکے بال جھڑگئے (صحیح بخاری، باب الحجرۃ) صحت ہوئی تواُم رومان کورسم عروسی ادا کرنے کا خیال آیا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر۹/سال کی تھی، سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں کہ اُم رومان نے آواز دی، ان کواس واقعہ کی خبر تک نہ تھی، ماں کے پاس آئیں؛ انہوں نے منہ دھویا، بال درست کیئے، گھر میں لے گئیں، انصار کی عورتیں انتظار میں تھیں، یہ گھر میں داخل ہوئیں توسب نے مبارک باد دی، تھوڑی دیر کے بعد خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے (صحیح بخاری، تزویج عائشہ رضی اللہ عنہا وسیرۃ النبی مجلد۲) شوال میں نکاح ہوا تھا اور شوال ہی میں یہ رسم ادا کی گئی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے عرب کے بعض بیہودہ خیالات میں اصلاح ہوئی
(۱)عرب منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہیں کرتے تھے؛ اسی بناپرجب خولہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ ظاہر کیا توانہوں نے حیرت سے کہا کہ کیا یہ جائز ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی ہے؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَنْتَ أَخٌ فِیْ الْإِسْلَامِ تم توصرف مذہبی بھائی ہو
(۲)اہلِ عرب شوال میں شادی نہیں کرتے تھے، زمانہ قدیم میں اس مہینہ میں طاعون آیا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئیں۔
عام حالات
غزوات میں سے صرف غزوۂ اُحد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرکت کا پتہ چلتا ہے، صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُمِ سلیم رضی اللہ عنہ کودیکھا کہ مشک بھربھر کرلاتی تھیں اور زخمیوں کوپانی پلاتی تھیں۔
(بخاری:۲/۵۸۱)
غزوۂ مصطلق سنہ۵ھ کاواقعہ ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ تھیں، واپسی میں ان کا ہارکہیں گرگیا، پورے قافلہ کواترنا پڑا ، نماز کا وقت آیا توپانی نہ ملا، تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پریشان تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرہوئی اور تیمم کی آیت نازل ہوئی، اس اجازت سے تمام لوگ خوش ہوئے، اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے آل ابوبکر رضی اللہ عنہ! تم لوگوں کے لیے سرمایۂ برکت ہو؛ اسی لڑائی میں واقعہ افک پیش آیا، یعنی منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پرتہمت لگائی احادیث اور سیرکی کتابوں میں اس واقعہ کونہایت تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے؛ لیکن جس واقعہ کی نسبت قرآن مجید میں صاف مذکور ہے کہ سننے کے ساتھ لوگوں نے یہ کیوں نہیں کہدیا کہ بالکل افترا ہے، اس کوتفصیل کے ساتھ لکھنے کی چندا ضرورت نہیں۔
سنہ۹ھ میں تحریم اور ایلاء وتخییر کا واقعہ پیش آیا اور واقعۂ تحریم کی تفصیل حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں آئے گی؛ البتہ واقعہ ایلا کی تفصیل اس مقام پرکی جاتی ہے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زاہدانہ زندگی بسرفرماتے تھے، دودو مہینے گھرمیں آگ نہیں جلتی تھی، آئے دن فاقے ہوتے رہتے تھے، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن گوشرفِ صحبت کی برکت سے تمام ابنائے جنس سے ممتاز ہوگئی تھیں؛ تاہم بشریت بالکل معدوم نہیں ہوسکتی تھی، خصوصاً وہ دیکھتی تھیں کہ فتوحاتِ اسلام کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے اور غنیمت کا سرمایہ اس قدر پہنچ گیا ہے کہ اس کا ادنی حصہ بھی ان کی راحت وآرام کے لیے کافی ہوسکتا ہے، ان واقعات کا اقتضا تھا کہ ان کے صبروقناعت کا جام لبریز ہوجاتا۔
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ بیچ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ادھر اُدھر بیویاں بیٹھی ہیں اور توسیع نفقہ کا تقاضا ہے، دونوں اپنی صاحبزادیوں کی تنبیہ پرآمادہ ہوگئے؛ لیکن انہوں نے عرض کی کہ ہم آئندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوزائد مصارف کی تکلیف نہ دیں گے۔
دیگرازواج اپنے مطالبہ پرقائم رہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سکون خاطر میں یہ چیز اس قدر خلل انداز ہوئی کہ آپ نے عہد فرمایا کہ ایک مہینہ تک ازواجِ مطہرات سے نہ ملیں گے اتفاق یہ کہ اسی زمانہ میں آپ گھوڑے سے گرپڑے اور ساقِ (پنڈلی) مبارک پرزخم آیا، آپ نے بالاخانے پرتنہا نشینی اختیار کی، واقعات کے قرینہ سے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ نے تمام ازواج کوطلاق دیدی؟ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے ازواج کوطلاق دیدی؟ توآپ نے فرمایا: نہیں، یہ سن کرحضرت عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے۔
جب ایلا کی مدت یعنی ایک مہینہ گذرچکا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاخانہ سے اُترآئے، سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے وہ ایک ایک دن گنتی تھیں، بولیں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے ایک مہینے کے لیے عہد فرمایا تھا، ابھی توانتیس ہی دن ہوئے ہیں، ارشاد ہوا مہینہ کبھی انتیس کا بھی ہوتا ہے، اس کے بعد آیت تخییر نازل ہوئی، اس آیت کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا گیا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کومطلع فرمادیں کہ دوچیزیں تمہارے سامنے ہیں، دنیا اور آخرت؛ اگرتم دنیا چاہتی ہوتوآؤ میں تم کورخصتی جوڑے دیکر عزت واحترام کے ساتھ رخصت کردوں اور اگرتم خدا اور رسول اور ابدی راحت کی طلب گار ہوتوخدانے نیکوکاروں کے لیے بڑا اجر مہیا کررکھا ہے؛ چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان تمام معاملات میں پیش پیش تھیں، آپ نے ان کوارشادِ الہٰی سے مطلع فرمایا، انہوں نے کہا: میں سب کوچھوڑ کر خدا اور رسول کولیتی ہوں، تمام اورازواج نے بھی یہی جواب دیا۔
(صحیح بخاری:۲/۷۹۲۔ صحیح مسلم، باب الایلاء)
ربیع الاوّل سنہ۱۱ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی ۱۳/ دن علیل رہے، جن میں ۸/دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں اقامت فرمائی، خلقِ عمیم کی بناپرازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے صاف طورپراجازت نہیں طلب کی بلکہ پوچھا کہ کل میں کس کے گھررہوں گا؟دوسرادن (دوشنبہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام فرمانے کا تھا، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن نے مرضی اقدس سمجھ کرعرض کی کہ آپ جہاں چاہیں قیام فرمائیں، ضعف اس قدر زیادہ ہوگیا تھا کہ چلانہیں جاتا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ دونوں بازوتھام کربہ مشکل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہجرہ میں لائے۔
وفات سے پانچ روز پہلے (جمعرات کو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویاد آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ اشرفیاں رکھوائی تھیں، دریافت فرمایا کہ عائشہ! وہ اشرفیاں کہاں ہیں؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے بدگمان ہوکر ملے گا، جاؤ ان کوخدا کی راہ میں خیرات کردو۔
(مسندابن حنبل:۶/۴۹)
جس دن وفات ہوئی (یعنی دوشنبہ کے روز) بظاہر طبیعت کوسکون تھا لیکن دن جیسے جیسے چڑھتا جاتا تھا، آپ پرغشی طاری ہوتی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، آپ جب تندرست تھے توفرمایا کرتے تھے کہ پیغمبروں کواختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خواہ موت کوقبول کریں یاحیاتِ دنیا کوترجیح دیں، اس حالت میں اکثر آپ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے رہے مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ (النساء:۶۹) اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى وہ سمجھ گئیں کہ اب صرف رفاقتِ الہٰی مطلوب ہے۔
وفات سے ذراپہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ خدمتِ اقدس میں آئے آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سینے پرسرٹیک کرلیٹے تھے، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں مسواک تھی، مسواک کی طرف نظرجماکر دیکھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھیں کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں، عبدالرحمن سے مسواک لےکر دانتوں سے نرم کی اور خدمتِ اقدس میں پیش کی، آپ نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فخریہ کہا کرتی تھیں کہ تمام بیویوں میں مجھی کویہ شرف حاصل ہوا کہ آخروقت میں بھی میرا جھوٹا آپ نے منہ میں لگایا۔
اب وفات کا وقت قریب آرہا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کوسنبھالے بیٹھی تھیں کہ دفعۃً بدن کابوجھ معلوم ہوا، دیکھا توآنکھیں پھٹ کرچھت سے لگ گئیں تھیں اور روحِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم عالمِ قدس میں پرواز کرگئی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آہستہ سے سرِاقدس تکیہ پررکھ دیا اور رونے لگیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ابواب مناقب کا سب سے زریں باب یہ ہے کہ ان کے حجرہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن بننا نصیب ہوا اور نعشِ مبارک اسی حجرہ کے ایک گوشہ میں سپردِ خاک کی گئی؛ چونکہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے لیے خدا نے دوسری شادی ممنوع قرار دی تھی، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ۴۸/سال بیوگی کی حالت میں بسر کئے، اس زمانہ میں ان کی زندگی کا مقصد وحیدقرآن وحدیث کی تعلیم تھا، جس کا ذکر آئندہ آئے گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوبرس بعد سنہ۱۳ھ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے یہ سایۂ شفقت بھی باقی نہ رہا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے؛ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جس قدر دلجوئی کی وہ خود اس کواس طرح بیان فرماتی ہیں، ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ پربڑے بڑے احسانات کئے (مستدرک حاکم:۴/۸) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے لیے دس دس ہزار سالانہ وظیفہ مقرر فرمایا تھا؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وظیفہ بارہ ہزار تھا، جس کی وجہ یہ تھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسب سے زیادہ محبوب تھیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ میں مقیم تھیں، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے مدینہ سے جاکران کوواقعات سے آگاہ کیا تودعوتِ اصلاح کے لیے بصرہ گئیں اور وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ پیش آئی، جوجنگِ جمل کے نام سے مشہور ہے، جمل اونٹ کوکہتے ہیں چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک اونٹ پرسوار تھیں اور اس نے اس معرکہ میں بڑی اہمیت حاصل کی تھی اس لیے یہ جنگ بھی اسی کی نسبت سے مشہور ہوگئی، یہ جنگ اگرچہ بالکل اتفاقی طور پر پیش آگئی تھی تاہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کواس کا ہمیشہ افسوس رہا، بخاری میں ہے کہ وفات کے وقت انہوں نے وصیت کی کہ مجھے روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ساتھ دفن نہ کرنا بلکہ بقیع میں اور ازواج کے ساتھ دفن کرنا؛ کیونکہ میں نے آپ کے بعد ایک جرم کیا ہے (کتاب الجنائز ومستدرک حاکم:۴/۸)ابن سعد میں ہے کہ وہ جب یہ آیت پڑھتی تھیں وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّترجمہ:اے پیغمبر کی بیویو! اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو، تواس قدر روتی تھیں کہ آنچل ترہوجاتا تھا۔
(طبقات ابنِ سعد:۲/۵۹)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھارہ برس اور زندہ رہیں اور یہ تمام زمانہ سکون اور خاموشی میں گذرا۔
وفات
امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا اخیرزمانہ خلافت تھا کہ رمضان سنہ۵۸ھ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رحلت فرمائی، اس وقت ۶۷/سرسٹھ برس کا سن تھا اور وصیت کے مطابق جنۃ البقیع میں رات کے وقت مدفون ہوئیں، قاسم بن محمدرضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن ابی عتیق رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن زبیررضی اللہ عنہ نے قبر میں اُتارا، اس وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، مروان بن حکم کی طرف سے مدینہ کے حاکم تھے، اس لیے انہوں نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔
اولاد
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی، ابن الاعرابی نے لکھا ہے کہ ایک ناتمام بچہ ساقط ہوا تھا، اس کا نام عبداللہ تھا اور اسی کے نام پرانہوں نے کنیت رکھی تھی؛ لیکن یہ قطعاً غلط ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبداللہ ان کے بھانجے عبداللہ بن زبیر کے تعلق سے تھی، جن کوانہوں نے متبنیٰ بنایا تھا۔
حلیہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رواور صاحب جمال تھیں، رنگ سرخ وسفید تھا۔
فضل وکمال
علمی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کونہ صرف عورتوں پرنہ صرف دوسری اُمہات المؤمنین پر نہ صرف خاص خاص صحابیوں پربلکہ باستثناء سے چند تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین پرفوقیت حاصل تھی، جامع ترمذی میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
مَاأَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّاوَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا۔
(ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر:۳۸۱۸، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:ہم کوکبھی کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جس کوہم نے عائشہ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات نہ ملے ہوں۔
امام زہری رحمہ اللہ جوسرخیل تابعین میں سے تھے، فرماتے ہیں:
كَانَتْ عَائشَةَ أَعلم الناس يسألها الأكابر مِنْ أَصْحَاب رَسُوْل اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے اکابر صحابہ ان سے پوچھا کرتے تھے۔
عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
مَارَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَلَابِفَرَيْضَة وَلَابِحَلَالِ وَلَابِحَرَامٍ وَلَابِفِقْهٍ، وَلَابِطب، وَلَابِشَعْرٍ، وَلَابِحَدِيْثِ الْعَرَبِ وَلَابِنَسْبٍ مِن عَائشَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالىٰ عَنْهَا۔
(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد:۱۱/۱۷۹، شاملہ، موقع يعسوب)
ترجمہ:قرآن، فرائض، حلال وحرام، فقہ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم، عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کونہیں دیکھا۔
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک شہادت ہے:
لَوْجمع علم الناس كلهم، ثُمَّ علم أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَانَتْ عَائِشَةَ أَوْسَعَهُمْ عِلْمًا۔
(المستدرک،كتاب معرفة الصحابة رضي الله عنهم،ذكر الصحابيات من أزواج رسول اللهﷺ وغيرهن،حدیث نمبر:۶۸۱۲، شاملہ،موقع جامع الحديث)
ترجمہ:اگرتمام مردوں کا اور اُمہات المؤمنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جائے توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم وسیع ترہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار مجتہدینِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے اور اس حیثیت سے وہ اس قدربلند ہیں کہ بے تکلف ان کا نام حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ لیا جاسکتا ہے، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فتوے دیتی تھیں اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم پرانہو ں نے جودقیق اعتراضات کئے ہیں ان کوعلامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ایک رسالہ میں جمع کردیا ہے، اس رسالہ کا نام عین الاصابہ فی مااستدرکتہ عائشہ رضی اللہ عنہا علی الصحابہ ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکثرینِ صحابہ میں داخل ہیں، ان سے ۲۲۱۰/ حدیثیں مروی ہیں، جن میں ۱۷۴/حدیثوں پرشیخین نے اتفاق کیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے منفرداً ان سے ۵۴/حدیثیں روایت کی ہیں ۶۸/حثیثوں میں امام مسلم منفرد ہیں، بعض لوگوں کا قول ہے کہ احکامِ شرعیہ میں سے ایک چوتھائی ان سے منقول ہے، علم کلام کے متعدد مسائل ان کی زبان سے ادا ہوئے ہیں؛ چنانچہ روایت باری، علم غیب، عصمتِ انبیاء، معراج، ترتیب خلافت اور سماع موتیٰ وغیرہ کے متعلق انہوں نے جوخیالات ظاہر کئے ہیں، انصاف یہ ہے کہ ان میں ان کی دقت نظر کا پلہ بھاری نظر آتا ہے، علم اسرار الدین کے متعلق بھی ان سے بہت سے مسائل مروی ہیں؛ چنانچہ قرآن مجید کی ترتیب نزول، مدینہ میں کامیابی، اسلام کے اسباب، غسل جمعہ، نمازِ قصر کی علت، صوم عاشورہ کا سبب، حج کی حقیقت اور ہجرت کے معنی کی انہوں نے خاص تشریحیں کی ہیں، طب کے متعلق وہی عام معلومات تھیں، جوگھر کی عورتوں کوعام طورپر ہوتی ہیں؛ البتہ تاریخِ عرب میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں، عرب جاہلیت کے حالات ان کے رسم ورواج، ان کے انساب اور ان کی طرزِ معاشرت کے متعلق انہوں نے بعض ایسی باتیں بیان کی ہیں، جودوسری جگہ نہیں مل سکتیں، اسلامی تاریخ کے متعلق بھی بعض اہم واقعات ان سے منقول ہیں، مثلاً آغازِ وحی کی کیفیت، ہجرت کے واقعات، واقعہ افک، نزولِ قرآن اور اس کی ترتیب، نماز کی صورتیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کے حالات، غزوۂ بدر، اُحد، خندق، قریظہ کے واقعات، غزوۂ ذات الرقاع میں نمازِ خوف کی کیفیت، فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت، حجۃ الوداع کے ضروری حالات، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وعادات، خلافتِ صدیقی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کا دعویٰ میراث، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ملالِ خاطر اور پھربیعت کے تمام مفصل حالات ان ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوئے ہیں۔
ادبی حیثیت سے وہ نہایت شیریں کلام اور فصیح اللسان تھیں، ترمذی میں موسیٰ ابن طلحہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
مَارَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ۔
(ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر:۳۸۱۹، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا۔
اگرچہ احادیث میں روایت بالمعنی کا عام طور پررواج ہے اور روایت باللفظ کم اور نہایت کم ہوتی ہے تاہم جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اصلی الفاظ محفوظ رہ گئے ہیں، پوری حدیث میں جان پڑگئی ہے، مثلاً آغازِ وحی کے سلسلہ میں فرماتی ہیں:
لَايَرَى رُؤْيَا إِلَّاجَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ۔
(بخاری، بَابُ بدْءِ الْوحْيِ،حدیث نمبر:۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:آپ جوخواب دیکھتے تھے سپیدۂ سحر کی طرح نمودار ہوجاتا تھا۔
آپ پرجب وحی کی کیفیت طاری ہوتی توجبینِ مبارک پرعرق آجاتا تھا اِس کواس طرح ادا کرتی ہیں:
مِثْلُ الْجُمَانِ۔
ترجمہ: پیشانی پرموتی ڈھلکتے تھے۔
(بخاری، كِتَاب الشَّهَادَاتِ،بَاب تَعْدِيلِ النِّسَاءِ بَعْضِهِنَّ بَعْضًا،حدیث نمبر:۲۴۶۹، شاملہ، موقع الإسلام)
واقعہ افک میں انہیں راتوں کونیند نہیں آتی تھی، اس کواس طرح بیان فرماتی ہیں:
وَلَاأَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ۔
ترجمہ:میں نے سرمۂ خواب نہیں لگایا۔
(بخاری، كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب حَدِيثِ الْإِفْكِ،حدیث نمبر:۳۸۲۶، شاملہ، موقع الإسلام)
صحیح بخاری میں ان کے ذریعہ سے ام زرع کا جوقصہ مذکور ہے، وہ جان ادب ہے اور اہلِ ادب نے اس کی مفصل شرحیں اور حاشیے لکھے ہیں، خطابت کے لحاظ سے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سواتمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں ممتاز تھیں جنگ جمل میں انہوں نے جوتقریریں کی ہیں، وہ جوش اور زور کے لحاظ سے اپنا جواب نہیں رکھتیں، ایک تقریر میں فرماتی ہیں:
لوگو! خاموص، خاموش، تم پرمیرامادری حق ہے، مجھے نصیحت کی عزت حاصل ہے، سوا اس شحص کے جوخدا کا فرمانبردار نہیں ہے، مجھ کوکوئی الزام نہیں دے سکتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پرسررکھے ہوئے وفات پائی ہے، میں آپ کی محبوب ترین بیوی ہوں، خدا نے مجھ کودوسروں سے ہرطرح محفوظ رکھا اور میری ذات سے مؤمن ومنافق میں تمیز ہوئی اور میرے ہی سبب سے تم پرخدا نے تیمم کا حکم نازل فرمایا؛ پھرمیرا باپ دنیا میں تیسرا مسلمان ہے اور غارِ حرا میں دوکا دوسرا تھا اور پہلا شخص تھا جوصدیق کے لقب سے مخاطب ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خوش ہوکر اور اس کوطوق خلافت پہناکر وفات پائی اس کے بعد جب مذہب اسلام کی رسی ہلنی ڈلنے لگی تومیرا ہی باپ تھا جس نے اس کے دونوں سرے تھام لیے،جس نے نفاق کی باگ روک دی، جس نے ارتداد کاسرچشمہ خشک کردیا، جس نے یہودیوں کی آتش افروزی سرد کی، تم لوگ اس وقت آنکھیں بند کئے غدروفتنہ کے منتظر تھے اور شوروغوغاپر گوش برآواز تھے، اس نے شگاف کوبرابر کیا، بیکار کودرست کیا، گرتوں کوسنبھالا، دلوں کی مدفون بیماریوں کودور کیا، جوپانی سے سیراب ہوچکے تھے، ان کوتھان تک پہنچادیا، جوپیاسے تھے، ان کوگھاٹ پرلے آیا اور جوایک بار پانی پی چکے تھے انہیں دوبارہ پلایا جب وہ نفاق کا سرکچل چکا اور اہلِ شرک کے لیے آتشِ جنگ مشتعل کرچکا اور تمہارے سامان کی گھٹری کوڈوری سے باندھ چکا توخدا نے اُسے اُٹھالیا..............۔
ہاں میں سوال کا نشانہ بن گئی ہوں کہ کیوں فوج لےکرنکلی؟ میرا مقصد اس سے گناہ کی تلاش اور فتنہ کی جستجو نہیں ہے، جس کومیں پامال کرنا چاہتی ہوں جوکچھ کہہ رہی ہوں سچائی اور انصاف کے ساتھ تنبیہ اور اتمامِ حجت کے لیے۔
(عقدالفرید، باب الخطیب وذکرواقعہ جمل:۱۴)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گوشعر نہیں کہتی تھیں، تاہم شاعرانہ مذاق اس قدر عمدہ پایا تھا کہ حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ عنہ جوعرب کے مسلم الثبوت شاعر تھے، ان کی خدمت میں اشعار سنانے کے لیے حاضر ہوتے تھے، امام بخاری نے ادب المفرد میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوکعب بن مالک کاپورا قصیدہ یاد تھا، اس قصیدہ میں کم وبیش چالیس شعر تھے، کعب کے علاوہ ان کودیگر جاہلی اور اسلامی شعراء کے اشعار بھی بکثرت یاد تھے، جن کووہ مناسب موقعوں پرپڑھا کرتی تھیں؛ چنانچہ وہ احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف ان علوم کی ماہر تھیں؛ بلکہ دوسروں کوبھی ماہربنادیتی تھیں؛ چنانچہ ان کے دامنِ تربیت میں جولوگ پرورش پاکر نکلے؛ اگرچہ ان کی تعداد دوسو کے قریب ہے؛ لیکن ان میں جن کوزیادہ قرب واختصاص حاصل تھا، وہ حسب ذیل ہیں:
عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، مسروق، عمرۃ، صفیہ بنتِ شیبہ، عائشہ بنت طلحہ، معاوۃ عدویہ۔
اخلاق وعادات
اخلاقی حیثیت سے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بلند مرتبہ رکھتی تھیں، وہ نہایت قانع تھیں، غیبت سے احتراز کرتی تھیں، احسان کم قبول کرتیں؛ اگرچہ خودستائی ناپسند تھی، تاہم نہایت خوددار تھیں، شجاعت اور دلیری بھی ان کاخاص جوہر تھا۔
ان کا سب سے نمایاں وصف جود وسخا تھا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کونہیں دیکھا، ایک مرتبہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے توشام ہوتے ہوتے سب خیرات کردیئے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا، اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا، لونڈی نے عرض کی کہ افطار کے لیے کچھ نہیں ہے، فرمایا پہلے سے کیوں نہ یاد دلایا۔
(مستدرک حاکم:۴/۱۳)
ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جوان کے متبنیٰ فرزند تھے ان کی فیاضی دیکھ کرگھبراگئے اور کہا کہ اب ان کا ہاتھ روکنا چاہئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کومعلوم ہوا توسخت برہم ہوئیں اور قسم کھائی کہ ان سے بات نہ کریں گی؛ چنانچہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ مدت تک معتوب رہے اور بڑی دقت سے ان کا غصہ فروہوا۔
(صحیح بخاری، باب مناقب قریش)
نہایت خاشع، متضرع اور عبادت گذار تھیں، چاشت کی نماز برابر پڑھتیں فرماتی تھیں کہ اگرمیرا باپ بھی قبرسے اُٹھ آئے اور مجھ کومنع کرے تب بھی میں باز نہ آؤں گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ راتوں کواُٹھ کرتہجد کی نماز ادا کرتی تھیں اور اس کی اس قدر پابند تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب کبھی یہ نماز قضا ہوجاتی تونمازِ فجر سے پہلے اُٹھ کر اس کوپڑھ لیتی تھیں، رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتی تھیں، ذکوان ان کا غلام امامت کرتا اور وہ مقتدی ہوتیں؛ اکثر روزے رکھا کرتی تھیں، حج کی بھی شدت سے پابند تھیں اور ہرسال اس فرض کوادا کرتی تھیں، غلاموں پرشفقت کرتیں اور ان کوخرید کرآزاد کرتی تھیں، ان کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ۶۷/ہے۔
(شرح بلوغ المرام، کتاب العتق)