Log in

View Full Version : حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا



intelligent086
08-30-2014, 12:55 AM
نام ونسب

خدیجہ نام، اُمِ ہند کنیت، طاہرہ لقب، سلسلہ نسب یہ ہے، خدیجہ بنتِ خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی، قصی پرپہنچ کران کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے مل جاتا ہے، والدہ کا نام فاطمہ بنتِ زائدہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد اپنے قبیلہ میں نہایت معزز شخص تھے، مکہ آکر اقامت کی، عبدالدار ابنِ قصیٰ کے جواُن کے ابن عم تھے، حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنتِ زائدہ سے شادی کی، جن کے بطن سے عام الفیل سے ۱۵/سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔
(طبقات ابنِ سعد:۸/۸،۱۰)

نکاح

سنِ شعور کو پہنچیں تواپنے پاکیزہ اخلاق کی بناپر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں (اصابہ:۸/۶۰) باپ نے ان صفات کا لحاظ رکھ کرشادی کے لیے ورقہ بن نوفل کی جوبرادر زادہ اور تورات وانجیل کے بہت بڑے عالم تھے، منتخب کیا؛ لیکن پھرکسی وجہ سے یہ نسبت نہ ہوسکی اور ابوہالہ بن بناش تمیمی سے نکاح ہوگیا۔
(استیعاب:۲/۳۷۸)

ابوہالہ کے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے عقدِ نکاح میں آئیں؛ اسی زمانہ میں حرب الفجار چھڑی، جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے باپ لڑائی کے لیے نکلے اور مارے گئے (طبقات:۸/۹) یہ عام الفیل سے ۲۰/سال بعد کا واقعہ ہے۔
(طبقات:۱/۸۱)

تجارت

باپ اور شوہ رکے مرنے سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کوسخت دقت واقع ہوئی، ذریعۂ معاش تجارت تھی، جس کاکوئی نگران نہ تھا؛ تاہم اپنے اعزہ کومعاوضہ دے کرمالِ تجارت بھیجتی تھیں، ایک مرتبہ مال کی روانگی کا وقت آیا توابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم کوخدیجہ رضی اللہ عنہا سے جاکر ملنا چاہئے، ان کا مال شام جائے گا؛ بہتر ہوتا کہ تم بھی ساتھ جاتے، میرے پاس روپیہ نہیں؛ ورنہ میں خود تمہارے لیے سرمایہ مہیا کردیتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت امین کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ کے حسن معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا عام چرچا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کواس گفتگو کی خبرملی توفوراً پیغام بھیجا کہ آپ میرا مالِ تجارت لے کر شام کوجائیں، جومعاوضہ میں اوروں کودیتی ہوں آپ کواس مضاعف دوں گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا اور مالِ تجارت لے کر میسرہ (خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام) کے ہمارہ بصریٰ تشریف لے گئے، اس سال کا نفع سالہائے گذشتہ کے نفع سے مضاعف تھا۔
(طبقات:۱/۸۱)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقدِ نکاح میں

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دولت وثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کواپنا گرویدہ بنالیا تھا اور ہرشخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا؛ لیکن کارکنانِ قضاوقدر کی نگاہِ انتخاب کسی اور پرپڑچکی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مالِ تجارت لے کر شام سے واپس آئے توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کا پیغام بھیجا، نفیسہ بنت منیہ (یعلیٰ بن امیہ کی ہمشیر) اس خدمت پرمقرر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمایا (طبقات:۱/۸۴) اور شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد اگرچہ وفات پاچکے تھے تاہم ان کے چچا عمروبن اسد زندہ تھے، عرب میں عورتوں کویہ آزادی حاصل تھی کہ شادی بیاہ کے متعلق خود گفتگو کرسکتی تھیں، اسی بناپر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے چچا کے ہوتے خود براہِ راست تمام مراتب طے کئے۔

تاریخ معین پرابوطالب اور تمام رؤسائے خاندان جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کوجمع کیا تھا، ابوطالب نے خطبہ نکاح پڑھا، عمروبن اسد کے مشورہ سے ۵۰۰/ سوطلائی درہم مہرقرار پایا اور خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا حرم نبوت ہوکر ام المؤمنین کے شرف سے ممتاز ہوئیں، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پچیس سال کے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس برس کی تھی، یہ بعثت سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔
(اصابہ:۸/۶۰)

اسلام

پندرہ برس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہوئے اور فرائض نبوت کوادا کرنا چاہا توسب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کویہ پیغام سنایا، وہ سننے سے پہلے مؤمن تھیں؛ کیونکہ ان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقِ دعوےٰ کا کوئی شخص فیصلہ نہیں کرسکتا تھا، صحیح بخاری، باب بدء الوحی میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور وہ یہ ہے:

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَابُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَايَرَى رُؤْيَا إِلَّاجَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَالتَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَاأَنَابِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَاأَنَابِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَاأَنَابِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ} فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلَّا وَاللَّهِ مَايُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً قَدْ تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ فَيَكْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَاشَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَاابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَاابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَارَأَى فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى يَالَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْيُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَاجِئْتَ بِهِ إِلَّاعُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ۔
(بخاری،بَابُ بدْءِ الْوحْيِ،حدیث نمبر:۳، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پروحی کی ابتدا رویائے صادقہ سے ہوئی، آپ جوکچھ خواب میں دیکھتے تھے سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہوجاتا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلوت گزیں ہوگئے؛ چنانچہ کھانے پینے کا سامان لے کرغارِ حرا تشریف لے جاتے اور وہاں تحنث یعنی عبادت کرتے تھے، جب سامان ہوچکتا توپھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور پھرواپس جاکر مراقبہ میں مصروف ہوتے؛ یہاں تک کہ ایک دن فرشتۂ غیب نظر آیا کہ آپ سے کہہ رہا ہے، پڑھ! آپ نے فرمایا: میں پڑھا لکھا نہیں، اس نے زور سے دبایا؛ پھرمجھ کوچھوڑدیا اور کہا: پڑھ! تومیں نے پھرکہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں؛ پھراس نے دوبارہ زور سے دبایا اور چھوڑ دیا اور کہا: پڑھ! پھر میں نے کہا: میں پڑھا لکھا نہیں؛ اسی طرح تیسری دفعہ دباکر کہا: پڑھ! اُس خدا کا نام جس نے کائنات کوپیدا کیا، جس نے آدمی کوگوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ! تیرا خدا کریم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے توجلالِ الہٰی سے لبریز تھے، آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا: مجھ کوکپڑا اُڑھاؤ مجھ کوکپڑا اُڑھاؤ، لوگوں نے کپڑا اُوڑھایا توہیبت کم ہوئی؛ پھرحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تمام واقعہ بیان کیا اور کہا: مجھ کوڈر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ متردد نہ ہوں، اللہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا؛ کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں، مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں؛ پھروہ آپ کواپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جومذہباً نصرانی تھے، عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے، اب بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ اپنے بھتیجے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی باتیں سنو! بولے ابن الاخ تونے کیا دیکھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ کی کیفیت بیان کی توکہا یہ وہی ناموس ہے جوموسیٰ پر اترا تھا، کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کوشہرِ بدر کرےگی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ہاں جوکچھ آپ پرنازل ہوا جب کسی پرنازل ہوتا ہے تودنیا اس کی ہوجاتی ہے اور اگر اس وقت تک میں زندہ رہا توتمہاری وزنی مدد کرونگا، اس کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہوگیا اور وحی کچھ دنوں کے لیے رُک گئی۔

اس وقت تک نمازِ پنجگانہ فرض نہ تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نوافل پڑھا کرتے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ نوافل میں شرکت کرتی تھیں، ابن سعد کہتے ہیں:
مكث رَسُوْلُ اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَدِيْجَةُ يُصَليان سِرًا مَاشَاءَ اللّٰه۔
(طبقات الکبریٰ ابن سعد:۸/۱۷، شاملہ، موقع الوراق)
ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدیجہ رضی اللہ عنہا عرصہ تک خفیہ طور پرنماز پڑھا کرتے۔

عفیف کندی سامان خریدنے کے لیے مکہ آئے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر میں فروکش ہوئے، صبح کے وقت ایک دن کعبہ کی طرف نظر تھی، دیکھا کہ ایک نوجوان آیا اور آسمان کی طرف دیکھ کرقبلہ رُخ کھڑا ہوگیا؛ پھرایک لڑکا اس کے داہنی طرف آکرکھڑا ہوا؛ پھرایک عورت دونوں کے پیچھے کھڑی ہوئی، نماز پڑھ کریہ لوگ چلے گئے، توعفیف نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کوئی عظیم الشان واقعہ پیش آنے والا ہے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، ہاں! پھرکہا: جانتے ہو یہ نوجوان کون ہے؟ یہ میرا بھتیجا محمد ہے، یہ دوسرا بھتیجا علی ہے اور یہ محمد کی بیوی (خدیجہ رضی اللہ عنہا) ہے، میرے بھتیجے کا خیال ہے کہ اس کا مذہب پروردگارِ عالم کا مذہب ہے اوروہ جوکچھ کرتا ہے اُس کے حکم سے کرتا ہے، دنیا میں جہاں تک مجھ کوعلم ہے اس خیال کے صرف یہی تین شخص ہیں۔
(طبقات:۸/۱۰،۱۱)

عقیلی اس روایت کوضعیف سمجھتے ہیں؛ لیکن ہمارے نزدیک اس کے ضعیف ہونے کی کوئی وجہ نہیں، درایت کے لحاظ سے اس میں کوئی خرابی نہیں، روایت کی حیثیت سے اس کے ثبوت کے متعدد طریق میں محدث ابن سعد نے اس کونقل کیا ہے، بغوی، ابویعلی اور نسائی نے اس کواپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، حاکم، ابن خیثمہ، ابن مندہ اور صاحب غیلانیات نے اسے مقبول مانا ہے اور سب سے بڑھ کریہ کہ اس کوامام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور اس کوصحیح کہا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے صرف نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ آغازِ اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی معین ومددگار ثابت ہوئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجوچند سال تک کفارِ مکہ اذیت دیتے ہوئے ہچکچاتے تھے، اس میں بڑی حد تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اثرکام کررہا تھا، اوپرگذرچکا ہے کہ آغازِ نبوت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ مجھ کوڈر ہے توانہوں نے کہا: کہ آپ متردد نہ ہوں، خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا، دعوتِ اسلام کے سلسلے میں جب مشرکین نے آپ کوطرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کوتسلی اور تشفی دی۔
فَكَانَ لَايسمع مِنَ الْمُشْرِكِيْن شَيْئًا يكرهه من رد عليه وَتكذيب له إلافرج اللّٰه عنه بِهَا تثبته وَتصدقه وَتخفف عَنْهُ وتهون عَلَيْهِ مَايلقى مِنْ قَوْمِه۔
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب:۱/۵۸۷، شاملہ،يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر)
ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومشرکین کی تردید یاتکذیب سے جوکچھ صدمہ پہنچتا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکردور ہوجاتا تھا؛ کیونکہ وہ آپ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں اور مشرکین کے معاملہ کوآپ کے سامنے ہلکا کرکے پیش کرتی تھیں۔

سنہ۷ نبوی میں جب قریش نے اسلام کے تباہ کرنے کا فیصلہ کیا تویہ تدبیر سوچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کوایک گھاٹی میں محصور کیا جائے؛ چنانچہ ابوطالب مجبور ہوکر تمام خاندان ہاشم کے ساتھ شعب ابوطالب میں پناہ گزین ہوئے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی ساتھ آئیں، سیرت ابنِ ہشام میں ہے:
وَهِيَ عِنْدَ رَسُولِ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ وَمَعَهُ فِي الشّعْبِ۔
(سیرۃ ابن ہشام،خَبَرُ الصّحِيفَةِ،تَعَرّضُ أَبِي جَهْلٍ لِحَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَتَوَسّطُ أَبِي الْبَخْتَرِيّ،:۱/۳۵۲، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شعب ابوطالب میں تھیں۔

تین سال تک بنوہاشم نے اس حصار میں بسر کی یہ زمانہ ایساسخت گذرا کہ طلح کے پتے کھا کھاکر رہتے تھے؛ تاہم اس زمانہ میں بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اثر سے کبھی کبھی کھانا پہنچ جاتا تھا، چنانچہ ایک دن حکیم بن حزام نے جوحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بھتیجا تھا، تھوڑے سے گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا، راہ میں ابوجہل نے دیکھ لیا اور چھین لینا چاہا، اتفاق سے ابوالبختری کہیں سے آگیا وہ اگرچہ کافر تھا؛ لیکن اس کورحم آیا، ابوجہل سے کہا ایک شخص اپنی پھوپھی کوکھانے کے لیے کچھ بھیجتا ہے، توکیوں روکتا ہے۔
(سیرت ابن ہشام:۱/۱۹۲)

وفات

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد ۲۵/برس تک زندہ رہیں اور ۱۱/رمضان المبارک سنہ۱۰ نبوی (ہجرت سے تین سال قبل (بخاری:۱/۵۵۱)) انتقال کیا، اس وقت ان کی عمر ۶۴/سال ۶/ماہ کی تھی؛ چونکہ نمازِ جنازہ اس وقت تک مشروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے ان کی لاش اسی طرح دفن کردی گئی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کوداعیٔ اجل کے سپرد کیا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی قبر حجون میں ہے (طبقات ابن سعد:۸/۱۱) اور زیارت گاہ خلائق ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تاریخِ اسلام میں ایک جدید دور شروع ہوا؛ یہی زمانہ ہے جواسلام کا سخت ترین زمانہ ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سال کوعام الحزن (غم کاسال) فرمایا کرتے تھے؛ کیونکہ ان کے اُٹھ جانے کے بعد قریش کوکسی شخص کا پاس نہیں رہ گیا تھا اور اب وہ نہایت بے رحمی اور بیباکی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوستاتے تھے؛ اسی زمانہ میں آپ اہلِ مکہ سے نااُمید ہوکر طائف تشریف لے گئے تھے۔

اولاد

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بہت سی اولاد ہوئی، ابوہالہ سے جوان کے پہلے شوہر تھے، دولڑکے پیدا ہوئے، جن کے نام ہالہ اور ہند تھے، دوسرے شوہر یعنی عتیق سے ایک لڑکی پیدا ہوئی، اس کا نام بھی ہند تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ اولادیں ہوئیں، دوصاحبزادے جوبچپن میں انتقال کرگئے اور چار صاحبزادیاں، نام حسب ذیل ہیں:

(۱)حضرت قاسم رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے لڑکے تھے، ان ہی کے نام پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوالقاسم کنیت کرتے تھے، صغرِسنی میں مکہ میں انتقال کیا، اس وقت پیروں پرچلنے لگے تھے

(۲)حضرت زینب رضی اللہ عنہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں

(۳)حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بہت کم عمر پائی؛ چونکہ زمانہ نبوت میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے طیب اور طاہر کے لقب سے مشہور ہوئے

(۴)حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا

(۵)حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا

(۶)حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا،

اِن سب میں ایک ایک سال کا چھوٹاپا پڑاپا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنی اولاد کوبہت چاہتی تھیں اور چونکہ دنیا نے بھی ساتھ دیا تھا یعنی صاحب ثروت تھیں، اس لیے عقبہ کی لونڈی سلمہ کوبچوں کی پرورش پرمقرر کیا تھا، وہ ان کوکھلاتی اور دودھ پلاتی تھی۔

ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بعض خاص خصوصیتیں حاصل ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ہیں، وہ جب عقدِ نکاح میں آئیں توان کی عمر چالیس برس کی تھی؛ لیکن آنحضرت صلی اللہع لیہ وسلم نے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔

فضائل ومناقب

اُم المؤمنین حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی عظمت وفضیلت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا توفضائے عالم سے ایک آواز بھی آپ کی تائید میں نہ اُٹھی، کوہ حرا، وادیٔ عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃ العرب آپ کی آواز پرایک پیکر تصویر بنا ہوا تھا؛ لیکن اس عالمگیر خاموشی میں صرف ایک آواز تھی جوفضائے مکہ میں تموج پیدا کررہی تھی، یہ آواز حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے قلب مبارک سے بلند ہوئی تھی، جواس ظلمت کدۂ کفر وضلالت میں انوارِ الہٰی کا دوسرا تجلی گاہ تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ مقدس خاتون ہیں جنہوں نے نبوت سے پہلے بت پرستی ترک کردی تھی؛ چنانچہ مسندابن حنبل میں روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا: بخدا میں کبھی لات وعزیٰ کی پرستش نہ کرونگا؛ انہوں نے جواب دیا کہ لات کوجانے دیجئے، عزیٰ کوجانے دیجئے، یعنی ان کا ذکر بھی نہ کیجئے (مسنداحمد بن حنبل:۴/۲۲۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کی صدا بلند کی توسب سے پہلے ان ہی نے اس پرلبیک کہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کوان کی ذات سے جوتقویت تھی وہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک صفحہ سے نمایاں ہے، ابن ہشام میں ہے:
وَكَانَتْ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ عَلَى الْإِسْلَامِ۔
(سیرۃ ابن ہشام،ذِكْرُ الْإِسْرَاءِ وَالْمِعْرَاجِ،طَمَعُ الْمُشْرِكِينَ فِي الرّسُولِ بَعْدَ وَفَاةِ أَبِي طَالِبٍ وَخَدِيجَةَ،:۱/۴۱۶، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: وہ اسلام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی مشیرِکار تھیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کوجومحبت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس تمول اور اس دولت وثروت کے جوان کوحاصل تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خود کرتی تھیں؛ چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا برتن میں کچھ لارہی ہیں، آپ ان کوخدا کا اور میرا سلام پہنچادیجئے۔
(بخاری:۱/۵۳۹)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے سخت محبت تھی؛ لیکن وہ مکہ میں غلام کی حیثیت سے رہتے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کوآزاد کیا اور اب وہ کسی دنیاوی رئیس کے خادم ہونے کے بجائے شہنشاہِ رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے غلام تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بے انتہا محبت تھی، آپ نے ان کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی، ان کی وفات کے بعد آپ کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا توآپ ڈھونڈ ڈھونڈ کران کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ؛ گومیں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کونہیں دیکھا؛ لیکن مجھ کوجس قدر ان پررشک آتا تھا کسی اور پرنہیں آتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے، ایک دفعہ میں نے اس پرآپ کورنجیدہ کیا؛ لیکن آپ ے فرمایا کہ خدا نے مجھ کوان کی محبت دی ہے۔
(مسلم:۲/۳۳۳)

ایک دفعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد ان کی بہن ہالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئیں اور استیذان کے قاعدے سے اندر آنے کی اجازت مانگی، ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ملتی تھی، آپ کے کانوں میں آواز پڑی توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آگئیں اور آپ جھجھک اُٹھے اور فرمایا: کہ ہالہ ہوں گی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں ان کونہایت رشک ہوا، بولیں کہ آپ کیا ایک بڑھیا کی یاد کیا کرتے ہیں، جومرچکیں اور خدا نے ان سے اچھی بیویاں آپ کو دیں، صحیح بخاری میں یہ روایت یہیں تک ہے؛ لیکن استیعاب میں ہے کہ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی توانہوں نے تصدیق کی، جب لوگ کافر تھے تووہ اسلام لائیں، جب میرا کوئی معین نہ تھا توانہوں نے میری مدد کی (سیرۃ النبی، مجلد دوم، طبع دوم:۴۰۱) اور میری اولاد ان ہی سے ہوئی۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مناقب میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں، صحیح بخاری اور مسلم میں ہے:
خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ۔
(مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب فَضَائِلِ خَدِيجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا،حدیث نمبر:۴۴۵۸، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: عالم میں افضل ترین عورت مریم علیہ السلام اور خدیجہ رضی اللہ عنہ ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، خدیجہ رضی اللہ عنہ آئیں توفرمایا:
وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَاصَخَبَ فِيهِ وَلَانَصَبَ۔
(بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب تَزْوِيجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ وَفَضْلِهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،حدیث نمبر:۳۵۳۶، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:ان کو جنت میں ایک ایسا گھر ملنے کی بشارت سنادیجئے جوموتی کا ہوگا اور جس میں شوروغل اور محنت ومشقت نہ ہوگی۔

Mamin Mirza
08-30-2014, 10:54 AM
Jazak Allah..................................!!!​

intelligent086
09-01-2014, 10:20 PM
Jazak Allah..................................!!!​


بہت بہت شکریہ

BDunc
09-10-2014, 06:00 PM
Masha Allah..