intelligent086
08-27-2014, 09:54 AM
بے ارادہ میری نظر اس نوجوان پر پڑی- اس وقت وہ گلی کے نکڑ پر کھڑا مجھے تک رہا تھا- میری نظرپڑتے ہی وہ وہاں سے غائب ہو گیا- پہلے تو میں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی- اگلے ہی لمحے یہ بات مجھے کھٹکی کہ دیکھتے ہی یوں غائب کیوں ہو گیا- شاید اب تک وہاں میرا ہی منتظر تھا- کہیں میری ٹوہ میں تو نہیں لگا ہوا تھا- یہ سب سوچ کر میرا اعتماد لڑکھڑانے لگا- مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی-
گھر پہنچ کر چند لمحے میں نے اپنے آپ کو سمبھالا- پھر کپڑے تبدیل کر کے کھانا گرم کرنے لگا- اس دوران برابر اسی نوجوان کا دھیان رہا- نا جانے اس میں ایسی کونسی بات تھی- اس سے پہلے میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا- اگر دیکھا بھی ہوگا تو اتنی توجہ نہیں دی تھی- مجھے اس سے ایک انجانا خوف محسوس ہوا جو رفتہ رفتہ میرے وجود میں سرایت کرنے لگا- کھانے سے فارغ ہو کر حسب عادت میں اخبار لے کر بیٹھ گیا- ذہن اسی کی طرف رہا- ساتھ ساتھ یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ مجھے تنہا دیکھ کر کہیں گھر میں نا گھس آئے- میں نے ہمت کر کے کھڑکی سے باہر جھانکا- وہ ان پھر اسی نکڑ پر کھڑا تھا- کسی سے بتائیں کرتے ہوئے بار بار میرے گھر کی طرف اشارے کر رہا تھا- یہ دیکھ کر میں وہاں سے ہٹ گیا اور اپنی سانس درست کرنے لگا- اب مجھے یہ نئی پریشانی ہونے لگی کہ ایدھر اشارے کیوں کر رہا تھا- کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی- نہ پڑھنے میں جی لگ رہا تھا اور نہ آرام کرنے میں یکسوئی محسوس ہو رہی تھی- اسی وقت ٹیلیفون کی دو تین گھنٹیاں بھی سنائی دیں- فون اٹینڈ کرنے سے مجھے خوف آنے لگا- ابھی میں اپنے آپ کو سنبھال بھی نہیں پایا تھا کہ گھر کی اطلاعی گھنٹی بجی- اس نئی افتاد سے میں میں سہم گیا- اس وقت مجھ میں دروازہ کھولنے کا حوصلہ قطئی نہیں تھا- کیونکہ مجھے یقین تھا کہ دروازہ کھلتے ہی وہی داخل ہو جائے گا- مگر جب دروازے پر دستک بھی ہونے لگی تو میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا- میری بیوی آئی تھی- وہ ہفتے بھر سے اپنے میکے گئی ہوئی تھی- میری گھبراہٹ دیکھ کر اس نے مشکوک انداز میں ہر کمرے کو جھانک کر دیکھا- پھر حسب عادت مجھ پر برس پڑی کہ دروازہ اتنی دیر میں کیوں کھولا- میں نے کوئی جواب نہیں دیا- کہے بغیر میرے دل کی بات وہ کبھی نہیں سمجھ پاتی تھی- پھر گھر کی بکھری ہوئی حالت دیکھ کر بہت دیر تک بڑبڑاتی اور ساتھ ساتھ چیزوں کو سمیٹتی رہی-
اگلے روز میں آفس کے لیۓ نکلا تو ادھر ادھر دیکھتا رہا- وہ مجھے نظر نہیں آیا- میں ہلکا پھلکا ہو کر آگے بڑھ گیا- البتہ آفس میں سرے وقت یہی کھد بد رہی کہ وہ میری تک میں ضرور ہوگا- اپنی اسی کیفیت میں فائلوں پر کچھ سے کچھ لکھ گیا- یہ بات میرے افسر نے مجھے بلا کر بتائی- تب مجھے شرمندگی ہوئی- اس نے اس کا سبب جاننا چاہا تو میں محض ہکلا کر رہ گیا- بتاتا بھی تو کیا بتاتا- وہاں سے اٹھ کر تمام وقت اپنی سیٹ پر بیٹھا رہا- کئی ساتھیوں نے قریب آ کر پوچھا بھی کہ کیا تمہارے پاس آج کام زیادہ ہے- میں صرف ہوں ہاں کر کے رہ گیا- سہ پہر کو گھر واپس جاتے ہوئے بھی یہی خدشہ رہا کہ وہ کہیں آس پاس موجود ہے- پھر اگلے ہی لمحے وہ مجھے گلی سے گزرتے ہوئے دکھائی دیا- میں گھبراہٹ میں گھر کے دروازے پر دستک کے ساتھ کال بیل بھی دینے لگا- دروازہ جونہی کھلا تو میں غڑپ سے اندر داخل ہو گیا- یہ دیکھ کر بیوی حیران ہوئی- مگر خاموش رہی- اور سوالیہ انداز سے دیکھتی رہی- میں نے اس سے اپنے خوف کا جان بوجھ کر ابھی تک کوئی ذکر نہیں کیا تھا- کیونکہ وہ مجھے تسلی دینے کے بجائے مزید الجھا دیتی-
اب وہ نوجوان میرے اعصاب پر پوری طرح چھا چکا تھا- میں نے کہیں آنا جانا کم کر دیا- میری بیوی اس تبدیلی پر حیران ہونے سے زیادہ خوش تھی- میری بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر اس نے کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے لۓ کہا- میں نے کوئی جواب نہیں دیا- میں جانتا تھا کہ میرا علاج کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں- میں نے آس پاس رہنے والے دو تین جان پہچان والوں سے باتوں باتوں میں اس نوجوان کا تذکرہ کیا- کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اور ہر کسی نے بات بدل دی- میں نے یہی اندازہ لگایا کہ وہ جان بوجھ کر کچھ کہنے سے اجتناب برت رہے ہیں- یہ بھی ممکن تھا کہ انہوں نے میری اس بات کو کوئی اہمیت نا دی ہو- میں یہی سوچتا رہتا کہ آخر وہ میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے- اسے مجھ سے کیا عناد ہے- اس دشمنی کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی- کبھی اس سے مل کر اپنے زہن کو صاف کرنے کی سوچتا- یہ میرے بس میں نہیں تھا- اس لئے یہ سوچ کر مجبورا اپنے آپ کو تسلی دے لیتا کہ موجودہ معاشرے میں بعض لوگ بلا مقصد بھی کسی کے دشمن ہو جاتے ہیں-
چھٹی کے روز کچھ مہمان آنے والے تھے- بیوی نے کھانے پینے کی چیزیں لانے کے لئے کہا تو میں بادل نخواستہ تیار ہو گیا- لیکن اسی لمحے میرے وجود میں ہلچل مچ گئی- میں نے بیوی پر اپنی یہ کیفیت ظاہر نہیں ہونے دی- گھر سے نکل کر جیسے ہی آگے بڑھا تو یکایک میری نظر اسی نوجوان پر جا پڑی- وہ ذرا فاصلے پر تنہا کھڑا تھا- میرے قدم لڑکھڑانے لگے- مجھے دیکھتے ہی وہ پھر غائب ہو گیا- میں اپنے وجود کو کمزور قدموں پر لادے آگے بڑھتا رہا- لمحے بھر میں مجھے کئی برے برے خیال آئے- میں نے اپنے بچاؤ کی خاطر راستہ بدل لیا- کیونکہ مجھے سودا ضرور لے کر آنا تھا- ورنہ بیوی کی بدمزاجی کا سامنا کرنا پڑتا- میں جیسے ہی کسی اور گلی میں مڑا- میری چیخ حلق میں گھٹ کر رہ گئی- وہ اب میرے سامنے تھا- مجھے اتنے قریب پاتے ہی وہ خوف سے چیختا ہوا بھاگ کھڑا ہوا-
گھر پہنچ کر چند لمحے میں نے اپنے آپ کو سمبھالا- پھر کپڑے تبدیل کر کے کھانا گرم کرنے لگا- اس دوران برابر اسی نوجوان کا دھیان رہا- نا جانے اس میں ایسی کونسی بات تھی- اس سے پہلے میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا- اگر دیکھا بھی ہوگا تو اتنی توجہ نہیں دی تھی- مجھے اس سے ایک انجانا خوف محسوس ہوا جو رفتہ رفتہ میرے وجود میں سرایت کرنے لگا- کھانے سے فارغ ہو کر حسب عادت میں اخبار لے کر بیٹھ گیا- ذہن اسی کی طرف رہا- ساتھ ساتھ یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ مجھے تنہا دیکھ کر کہیں گھر میں نا گھس آئے- میں نے ہمت کر کے کھڑکی سے باہر جھانکا- وہ ان پھر اسی نکڑ پر کھڑا تھا- کسی سے بتائیں کرتے ہوئے بار بار میرے گھر کی طرف اشارے کر رہا تھا- یہ دیکھ کر میں وہاں سے ہٹ گیا اور اپنی سانس درست کرنے لگا- اب مجھے یہ نئی پریشانی ہونے لگی کہ ایدھر اشارے کیوں کر رہا تھا- کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی- نہ پڑھنے میں جی لگ رہا تھا اور نہ آرام کرنے میں یکسوئی محسوس ہو رہی تھی- اسی وقت ٹیلیفون کی دو تین گھنٹیاں بھی سنائی دیں- فون اٹینڈ کرنے سے مجھے خوف آنے لگا- ابھی میں اپنے آپ کو سنبھال بھی نہیں پایا تھا کہ گھر کی اطلاعی گھنٹی بجی- اس نئی افتاد سے میں میں سہم گیا- اس وقت مجھ میں دروازہ کھولنے کا حوصلہ قطئی نہیں تھا- کیونکہ مجھے یقین تھا کہ دروازہ کھلتے ہی وہی داخل ہو جائے گا- مگر جب دروازے پر دستک بھی ہونے لگی تو میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا- میری بیوی آئی تھی- وہ ہفتے بھر سے اپنے میکے گئی ہوئی تھی- میری گھبراہٹ دیکھ کر اس نے مشکوک انداز میں ہر کمرے کو جھانک کر دیکھا- پھر حسب عادت مجھ پر برس پڑی کہ دروازہ اتنی دیر میں کیوں کھولا- میں نے کوئی جواب نہیں دیا- کہے بغیر میرے دل کی بات وہ کبھی نہیں سمجھ پاتی تھی- پھر گھر کی بکھری ہوئی حالت دیکھ کر بہت دیر تک بڑبڑاتی اور ساتھ ساتھ چیزوں کو سمیٹتی رہی-
اگلے روز میں آفس کے لیۓ نکلا تو ادھر ادھر دیکھتا رہا- وہ مجھے نظر نہیں آیا- میں ہلکا پھلکا ہو کر آگے بڑھ گیا- البتہ آفس میں سرے وقت یہی کھد بد رہی کہ وہ میری تک میں ضرور ہوگا- اپنی اسی کیفیت میں فائلوں پر کچھ سے کچھ لکھ گیا- یہ بات میرے افسر نے مجھے بلا کر بتائی- تب مجھے شرمندگی ہوئی- اس نے اس کا سبب جاننا چاہا تو میں محض ہکلا کر رہ گیا- بتاتا بھی تو کیا بتاتا- وہاں سے اٹھ کر تمام وقت اپنی سیٹ پر بیٹھا رہا- کئی ساتھیوں نے قریب آ کر پوچھا بھی کہ کیا تمہارے پاس آج کام زیادہ ہے- میں صرف ہوں ہاں کر کے رہ گیا- سہ پہر کو گھر واپس جاتے ہوئے بھی یہی خدشہ رہا کہ وہ کہیں آس پاس موجود ہے- پھر اگلے ہی لمحے وہ مجھے گلی سے گزرتے ہوئے دکھائی دیا- میں گھبراہٹ میں گھر کے دروازے پر دستک کے ساتھ کال بیل بھی دینے لگا- دروازہ جونہی کھلا تو میں غڑپ سے اندر داخل ہو گیا- یہ دیکھ کر بیوی حیران ہوئی- مگر خاموش رہی- اور سوالیہ انداز سے دیکھتی رہی- میں نے اس سے اپنے خوف کا جان بوجھ کر ابھی تک کوئی ذکر نہیں کیا تھا- کیونکہ وہ مجھے تسلی دینے کے بجائے مزید الجھا دیتی-
اب وہ نوجوان میرے اعصاب پر پوری طرح چھا چکا تھا- میں نے کہیں آنا جانا کم کر دیا- میری بیوی اس تبدیلی پر حیران ہونے سے زیادہ خوش تھی- میری بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر اس نے کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے لۓ کہا- میں نے کوئی جواب نہیں دیا- میں جانتا تھا کہ میرا علاج کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں- میں نے آس پاس رہنے والے دو تین جان پہچان والوں سے باتوں باتوں میں اس نوجوان کا تذکرہ کیا- کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اور ہر کسی نے بات بدل دی- میں نے یہی اندازہ لگایا کہ وہ جان بوجھ کر کچھ کہنے سے اجتناب برت رہے ہیں- یہ بھی ممکن تھا کہ انہوں نے میری اس بات کو کوئی اہمیت نا دی ہو- میں یہی سوچتا رہتا کہ آخر وہ میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے- اسے مجھ سے کیا عناد ہے- اس دشمنی کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی- کبھی اس سے مل کر اپنے زہن کو صاف کرنے کی سوچتا- یہ میرے بس میں نہیں تھا- اس لئے یہ سوچ کر مجبورا اپنے آپ کو تسلی دے لیتا کہ موجودہ معاشرے میں بعض لوگ بلا مقصد بھی کسی کے دشمن ہو جاتے ہیں-
چھٹی کے روز کچھ مہمان آنے والے تھے- بیوی نے کھانے پینے کی چیزیں لانے کے لئے کہا تو میں بادل نخواستہ تیار ہو گیا- لیکن اسی لمحے میرے وجود میں ہلچل مچ گئی- میں نے بیوی پر اپنی یہ کیفیت ظاہر نہیں ہونے دی- گھر سے نکل کر جیسے ہی آگے بڑھا تو یکایک میری نظر اسی نوجوان پر جا پڑی- وہ ذرا فاصلے پر تنہا کھڑا تھا- میرے قدم لڑکھڑانے لگے- مجھے دیکھتے ہی وہ پھر غائب ہو گیا- میں اپنے وجود کو کمزور قدموں پر لادے آگے بڑھتا رہا- لمحے بھر میں مجھے کئی برے برے خیال آئے- میں نے اپنے بچاؤ کی خاطر راستہ بدل لیا- کیونکہ مجھے سودا ضرور لے کر آنا تھا- ورنہ بیوی کی بدمزاجی کا سامنا کرنا پڑتا- میں جیسے ہی کسی اور گلی میں مڑا- میری چیخ حلق میں گھٹ کر رہ گئی- وہ اب میرے سامنے تھا- مجھے اتنے قریب پاتے ہی وہ خوف سے چیختا ہوا بھاگ کھڑا ہوا-