intelligent086
08-23-2014, 04:14 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/10233_67055161.jpg
پروفیسر ڈاکٹر ثناء خالد
وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا نبی کریمؐ نے اُس میں بیٹی کو وہ عزت و احترام کا مقام عطا فرمایاجو اپنی مثال آپ ہے *********** اس زمین و آسمان کے درمیان صرف اسلام ہی وہ واحد دین حق ہے جس نے عورت کو اس کا حق دیا اور معاشرے میں عزت و بزرگی دی *********** زمانہ قبل از اسلام عرب معاشرے کو دور جہالت سے تعبیر کیا جاتاتھا دیگر برائیوں کے ساتھ اس وقت عورت نہایت مظلوم تھی اسے فروخت کرنا اور پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کرنے کا رواج عام تھا عورت کو وراثت میں کوئی حق حاصل نہ تھا ،اسلام کا سورج طلوع ہوتے ہی ان تما م برائیوں کا خاتمہ نبی رحمت ؐنے فرما دیا ۔ حضور پاک ؐکے صدقے اللہ کریم نے عورت کو اس کے حقوق کے ساتھ عزت و عظمت کا اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمایا اور عورت کو کبھی ماں قرار دیکر عظمت دی ،کبھی بہن کبھی بیٹی قرار دیا۔ حضور پاک ؐنے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا۔ آپ ؐنے فرمایا ’’ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے۔‘‘ حضرت ابو ہر یرہ ؓ نے فرمایا، ایک آدمی نے نبی کریم ؐکی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’ تمہاری ماں‘‘اس نے پھر عرض کیا، پھر کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’ تمہاری والدہ !‘‘ اس نے پھر سوال کیا، پھر کون ہے؟آپ ؐ نے فرمایا ’’تمہاری ماں !‘‘ پھر فرمایا’’ تمہارا باپ‘‘۔ اسی طرح وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا آپ ؐ نے بیٹی کو عزت و احترام کا مقام عطا فرمایا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ارشاد ربانی ہے کہ’’ اللہ تمہیں تمہاری اولاد(کی وراثت)کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دویا)دوسے زائد تو ان کیلئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کیلئے آدھا ہے ۔‘‘ (النساء)قرآن کریم نے بیٹی کی پیدائش پر غم وغصہ کو جاہلیت کی رسم اور انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور فرمایا کہ’’ جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی (پیدائش ) کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے اور وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ )آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے۔‘‘ (النحل ) اسی طرح قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے ۔قرآن کریم نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کیلئے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے کہ ’’اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے جوڑے بنائے اور تمہارے جوڑوں (بیویوں ) سے تمہارے لئے بیٹے پوتے اور نواسے پیدا فرمائے اور تمہیںپاکیزہ رزق عطا فرمایا تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر)باطل پرایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں۔‘‘ (النحل )حضور پاک ؐ نے اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ؐکی خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر خدمت ہو کر عرض گزار ہوا کہ یا رسولؐ اللہ !میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ ؐنے فرمایا’’ تم واپس چلے جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ قرآن کریم میںرب کائنات ارشاد فرماتا ہے ترجمہ’’اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو‘‘یہاں اللہ کریم نے ایمان والوں میں مردو عورت دونوں کو مخاطب فرمایا ہے یعنی جس طرح کے اعمال مردوں سے مطلوب ہیں اسی طرح ہی عورتوں سے مطلوب ہیں۔ اس زمین و آسمان کے درمیان صرف اسلام ہی وہ واحد دین حق ہے جس نے عورت کو اس کا حق دیا اور معاشرے میں اس کو جو عزت و بزرگی دی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کے سبب جب اسلامی اقدار کمزور پڑ گئیں، طاقتور نے کمزور کے حقوق کو غصب کرنا شروع کیا تو اس طرح معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ عورت اس کی زد میں سب سے پہلے آیا۔ عورتوںکے حقوق پامال ہونے لگے ،دنیا کے کئی معاشروں میں تو عورت کو ہر حق سے محروم کر دیا گیا یہاں تک کہ اس کی جان پر بھی اس کے شوہر کا یا دیگر مردوں کا حق گردانا جاتا تھا۔ یہ اعجاز صرف دین اسلام کا ہی ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق انسان ہونے کے ناطے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت و مرد میں کوئی تخصیص نہیں۔ اسلام اس بات سے منع کرتا ہے کہ معاشرہ عورت کو جزوی انسان سمجھے بلکہ وہ ایک مکمل انسان ہے جس طرح مرد کو اپنی شخصیت کی تکمیل اور آزادی اظہار کے مواقع میسر ہیں اسی طرح عورت بھی برابر کی حقدار ہے۔ جس طرح بیٹے اللہ کی نعمت ہیں اسی طرح بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں، جس طرح بیٹے سے خاندان کا حسب نسب قائم رہتا ہے اسی طرح بیٹی ساری انسانی نسل کو تربیت دیکر نیک راستے پر چلاتی ہے۔ چونکہ آج کل کا معاشرہ عورت کو اس کے حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اس لئے اسلام نے بیٹی کی قدرو منزلت ،پرورش اور اس کی تعلیم وتربیت کا زیادہ زور دیا ہے۔ بہتر تعلیم و تربیت اور اظہار کے مواقع میسر ہوں تو مردوعورت دونوں ملکر پورے معاشرے کو ترقی یافتہ اور کامیاب معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ اپنی محنت سے کمائے ہوئے رزق حلال کے حقوق ملکیت میں دونوں کا برابر حصہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ’’ مردوں نے جو کمایا اس میں ان کا حصہ ہے اور عورتوں نے جو کمایا ہے اس میں ان کا حصہ ہے۔‘‘(النساء ) حضور پاک ؐکے زمانے میں عورتیں کھیتی باڑی ،مویشی پالنے ،بیماروں اور زخمیوں کا علاج معالجہ ،سلائی کڑھائی اور دیگر امور سر انجام دیا کرتیں تھیں لیکن اسلام نے عورت کو کمانے کا پابند نہیں کیا بلکہ مرد کے قوی ہونے کے سبب اس کے نان و نفقہ کا پابند بنایا ہے کیونکہ جسمانی اعتبار سے مرد کوعورت پر فضیلت عطا ہوئی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ’’ مرد عورت کے نگران ہیں‘‘۔ اسلام نے عورت کو وراثت کا بھی حق دار ٹھہرایا ہے اور اس کیلئے بیوی ، بہن ،بیٹی ،ماں کے الگ الگ حصے مقر ر کئے ہیں۔ عورت کو اس کے حق وراثت سے محروم کرنا بہت بڑا ظلم ہے، انسان کی حقیقی آزادی اس میں ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق عورت کو اس کے حقوق دئیے جائیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا کے اکثر ممالک بالخصوص پاکستان کے کئی علاقوں میں آج تک عورت اپنے بنیادی معاشرتی حقوق سے محروم ہے۔ بعض علاقوں میں بچیوں کے سکول و کالج جا کر بنیادی تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی ہے۔ مرد اپنی ذاتی خواہشات ،جھوٹی انا اور شان وشوکت کی خاطر عورت کو مختلف قسم کے الزامات لگا کر ان کی قرآن سے شادی اوردیگر گمراہ کن رسومات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ جو لوگ عورت پر ظلم کرنا فخر سمجھتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی کریم ؐنے بیٹیوں کے کس قدر احترام کا سبق دیا ہے ۔ ہمارا معاشرہ بے حس اور عورتوں کو عدل و انصاف فراہم کرنے والے ادارے اپنے اختیارات اور عہدوں کے نشے میں غرق ہیں، ان کو عام غریب انسان چونٹیوں جیسا بھی نظر نہیں آرہا ۔ عورت کامطلب چھپا ہو اہے، عورت کا لفظ سنتے ہی سوچ کے دریچوں میں ایک شرم وحیاء کے پیکر کا مفہوم ابھرنے لگتا ہے۔ عورت کا حقیقی زیور پردہ اور حیاء ہے، عورت کا اصل سرمایہ شرم وحیاء ہے۔ اسلام نے عورت کو بہت مقام دیا ہے اسے گھر کی ملکہ کے ساتھ گھر کی زینت بھی بنایا ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت کر سکے۔ عورت حیاء کا پیکر ہے اس میں کوئی شک نہیں جب وہ ڈھکی چھپی رہتی تھی اس کی شرم وحیاء برقرار تھی۔ با پردہ خواتین صبح انقلاب کی روشن دلیل ہیں، حجاب مسلمان عورت کا حق بھی ہے اور امتیاز بھی۔ اگر ہم سب سیرت طیبہ سیدہ ،طیبہ ،طاہرہ ، ساجدہ ، خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہرہ ؓ کی سیرت اپنا لیں تو یہ معاشرہ ہمارے دم سے جنت بن سکتا ہے اور اللہ و رسول کریم ؐبھی ہم سے راضی ہو جائیں گے۔ ٭…٭…٭
پروفیسر ڈاکٹر ثناء خالد
وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا نبی کریمؐ نے اُس میں بیٹی کو وہ عزت و احترام کا مقام عطا فرمایاجو اپنی مثال آپ ہے *********** اس زمین و آسمان کے درمیان صرف اسلام ہی وہ واحد دین حق ہے جس نے عورت کو اس کا حق دیا اور معاشرے میں عزت و بزرگی دی *********** زمانہ قبل از اسلام عرب معاشرے کو دور جہالت سے تعبیر کیا جاتاتھا دیگر برائیوں کے ساتھ اس وقت عورت نہایت مظلوم تھی اسے فروخت کرنا اور پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کرنے کا رواج عام تھا عورت کو وراثت میں کوئی حق حاصل نہ تھا ،اسلام کا سورج طلوع ہوتے ہی ان تما م برائیوں کا خاتمہ نبی رحمت ؐنے فرما دیا ۔ حضور پاک ؐکے صدقے اللہ کریم نے عورت کو اس کے حقوق کے ساتھ عزت و عظمت کا اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمایا اور عورت کو کبھی ماں قرار دیکر عظمت دی ،کبھی بہن کبھی بیٹی قرار دیا۔ حضور پاک ؐنے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا۔ آپ ؐنے فرمایا ’’ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے۔‘‘ حضرت ابو ہر یرہ ؓ نے فرمایا، ایک آدمی نے نبی کریم ؐکی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’ تمہاری ماں‘‘اس نے پھر عرض کیا، پھر کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’ تمہاری والدہ !‘‘ اس نے پھر سوال کیا، پھر کون ہے؟آپ ؐ نے فرمایا ’’تمہاری ماں !‘‘ پھر فرمایا’’ تمہارا باپ‘‘۔ اسی طرح وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا آپ ؐ نے بیٹی کو عزت و احترام کا مقام عطا فرمایا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ارشاد ربانی ہے کہ’’ اللہ تمہیں تمہاری اولاد(کی وراثت)کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دویا)دوسے زائد تو ان کیلئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کیلئے آدھا ہے ۔‘‘ (النساء)قرآن کریم نے بیٹی کی پیدائش پر غم وغصہ کو جاہلیت کی رسم اور انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور فرمایا کہ’’ جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی (پیدائش ) کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے اور وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ )آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے۔‘‘ (النحل ) اسی طرح قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے ۔قرآن کریم نے نسل انسانی کے تسلسل و بقا کیلئے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے کہ ’’اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے جوڑے بنائے اور تمہارے جوڑوں (بیویوں ) سے تمہارے لئے بیٹے پوتے اور نواسے پیدا فرمائے اور تمہیںپاکیزہ رزق عطا فرمایا تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر)باطل پرایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں۔‘‘ (النحل )حضور پاک ؐ نے اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ؐکی خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر خدمت ہو کر عرض گزار ہوا کہ یا رسولؐ اللہ !میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ ؐنے فرمایا’’ تم واپس چلے جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ قرآن کریم میںرب کائنات ارشاد فرماتا ہے ترجمہ’’اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو‘‘یہاں اللہ کریم نے ایمان والوں میں مردو عورت دونوں کو مخاطب فرمایا ہے یعنی جس طرح کے اعمال مردوں سے مطلوب ہیں اسی طرح ہی عورتوں سے مطلوب ہیں۔ اس زمین و آسمان کے درمیان صرف اسلام ہی وہ واحد دین حق ہے جس نے عورت کو اس کا حق دیا اور معاشرے میں اس کو جو عزت و بزرگی دی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کے سبب جب اسلامی اقدار کمزور پڑ گئیں، طاقتور نے کمزور کے حقوق کو غصب کرنا شروع کیا تو اس طرح معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ عورت اس کی زد میں سب سے پہلے آیا۔ عورتوںکے حقوق پامال ہونے لگے ،دنیا کے کئی معاشروں میں تو عورت کو ہر حق سے محروم کر دیا گیا یہاں تک کہ اس کی جان پر بھی اس کے شوہر کا یا دیگر مردوں کا حق گردانا جاتا تھا۔ یہ اعجاز صرف دین اسلام کا ہی ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق انسان ہونے کے ناطے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت و مرد میں کوئی تخصیص نہیں۔ اسلام اس بات سے منع کرتا ہے کہ معاشرہ عورت کو جزوی انسان سمجھے بلکہ وہ ایک مکمل انسان ہے جس طرح مرد کو اپنی شخصیت کی تکمیل اور آزادی اظہار کے مواقع میسر ہیں اسی طرح عورت بھی برابر کی حقدار ہے۔ جس طرح بیٹے اللہ کی نعمت ہیں اسی طرح بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں، جس طرح بیٹے سے خاندان کا حسب نسب قائم رہتا ہے اسی طرح بیٹی ساری انسانی نسل کو تربیت دیکر نیک راستے پر چلاتی ہے۔ چونکہ آج کل کا معاشرہ عورت کو اس کے حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اس لئے اسلام نے بیٹی کی قدرو منزلت ،پرورش اور اس کی تعلیم وتربیت کا زیادہ زور دیا ہے۔ بہتر تعلیم و تربیت اور اظہار کے مواقع میسر ہوں تو مردوعورت دونوں ملکر پورے معاشرے کو ترقی یافتہ اور کامیاب معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ اپنی محنت سے کمائے ہوئے رزق حلال کے حقوق ملکیت میں دونوں کا برابر حصہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ’’ مردوں نے جو کمایا اس میں ان کا حصہ ہے اور عورتوں نے جو کمایا ہے اس میں ان کا حصہ ہے۔‘‘(النساء ) حضور پاک ؐکے زمانے میں عورتیں کھیتی باڑی ،مویشی پالنے ،بیماروں اور زخمیوں کا علاج معالجہ ،سلائی کڑھائی اور دیگر امور سر انجام دیا کرتیں تھیں لیکن اسلام نے عورت کو کمانے کا پابند نہیں کیا بلکہ مرد کے قوی ہونے کے سبب اس کے نان و نفقہ کا پابند بنایا ہے کیونکہ جسمانی اعتبار سے مرد کوعورت پر فضیلت عطا ہوئی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ’’ مرد عورت کے نگران ہیں‘‘۔ اسلام نے عورت کو وراثت کا بھی حق دار ٹھہرایا ہے اور اس کیلئے بیوی ، بہن ،بیٹی ،ماں کے الگ الگ حصے مقر ر کئے ہیں۔ عورت کو اس کے حق وراثت سے محروم کرنا بہت بڑا ظلم ہے، انسان کی حقیقی آزادی اس میں ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق عورت کو اس کے حقوق دئیے جائیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا کے اکثر ممالک بالخصوص پاکستان کے کئی علاقوں میں آج تک عورت اپنے بنیادی معاشرتی حقوق سے محروم ہے۔ بعض علاقوں میں بچیوں کے سکول و کالج جا کر بنیادی تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی ہے۔ مرد اپنی ذاتی خواہشات ،جھوٹی انا اور شان وشوکت کی خاطر عورت کو مختلف قسم کے الزامات لگا کر ان کی قرآن سے شادی اوردیگر گمراہ کن رسومات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ جو لوگ عورت پر ظلم کرنا فخر سمجھتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی کریم ؐنے بیٹیوں کے کس قدر احترام کا سبق دیا ہے ۔ ہمارا معاشرہ بے حس اور عورتوں کو عدل و انصاف فراہم کرنے والے ادارے اپنے اختیارات اور عہدوں کے نشے میں غرق ہیں، ان کو عام غریب انسان چونٹیوں جیسا بھی نظر نہیں آرہا ۔ عورت کامطلب چھپا ہو اہے، عورت کا لفظ سنتے ہی سوچ کے دریچوں میں ایک شرم وحیاء کے پیکر کا مفہوم ابھرنے لگتا ہے۔ عورت کا حقیقی زیور پردہ اور حیاء ہے، عورت کا اصل سرمایہ شرم وحیاء ہے۔ اسلام نے عورت کو بہت مقام دیا ہے اسے گھر کی ملکہ کے ساتھ گھر کی زینت بھی بنایا ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت کر سکے۔ عورت حیاء کا پیکر ہے اس میں کوئی شک نہیں جب وہ ڈھکی چھپی رہتی تھی اس کی شرم وحیاء برقرار تھی۔ با پردہ خواتین صبح انقلاب کی روشن دلیل ہیں، حجاب مسلمان عورت کا حق بھی ہے اور امتیاز بھی۔ اگر ہم سب سیرت طیبہ سیدہ ،طیبہ ،طاہرہ ، ساجدہ ، خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہرہ ؓ کی سیرت اپنا لیں تو یہ معاشرہ ہمارے دم سے جنت بن سکتا ہے اور اللہ و رسول کریم ؐبھی ہم سے راضی ہو جائیں گے۔ ٭…٭…٭