Mamin Mirza
08-20-2014, 12:35 PM
!!!ہنگامہ ہے یوں برپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.استقبال کرنا کوئی ہم سے یعنی ہم پاکستانیوں سے سیکھے۔پھر خواہ وہ رمضان کے بابرکت مہینے کا ہی کیوں نہ ہو۔گھر کے راشن سے لے کر کراکری تک ایک ایک شے کی خریداری کی جاتی ہے
باقاعدہ فہرست تیار کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے کیا خریدنا ہے،کیا نہیں۔کسے دعوتِ افطار پر پکوڑے کھلانے ہیں،کسے محض شربت میں آدھ سیر گھومتی برف پر ہی ٹرخانا ہے۔
!!،آمدِ رمضان سے پہلے افطاری اور سحر کے انتظامات اس درجہ خلوص سے کئے جاتے ہیں کہ گویا ایک روزہ بھی قضا ہونا جرم ہوگا،پھر خواہ زحمت ایک روزہ رکھنے کی بھی نہ کی جائے۔۔۔۔
کچھ ایسا ہی حال عیدالفطر کی تیاری کا بھی ہوا کرتاہے۔رمضان کا آخری عشرہ ہے اور یہ بابرکت ماہ اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔کچھ اسی بلکہ اس سے کئی گنا تیزی سے عید کی تیاریاں جاری و ساری ہیں۔بازاروں میں ہجوم اور رش دیکھ کر لگتا نہیں !کہ اسی ملک کے ایک حصے سے نولاکھ افراد اپنے ہی ملک میں مہاجرین بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں خیر اسے قوم کی زندہ دلی اور ہرحال میں جینے کی ادا کہے لیتے ہیں۔بات ہو رہی تھی عید کی خریداری کی۔جو شے قبل از رمضان دو سو روپے کی ملتی تھی اب چارسو کی ہوگئی ہے۔دکان داروں اور خواتین کی جھک جھک ایک ایسی جنگ ہے جس کا اختتام اکثر خواتین کی طے کی ہوئی قمتوں پر ہوتا ہے حالانکہ جیت دکاندار کی ہوتی ہے ۔۔۔!
کپڑوں سے لے کر جوتی۔چوڑیوں سے لے کر جیولری ہر ایک شے پر ایسی افتاد آ کے پڑتی ہے کہ جیسے افطاری پر روزے دار ٹوٹتے ہیں۔ٹیلرز حضرات کے دماغ اس آسمان پر ہوتے ہیں جہاں تک نہ سوچ کی پرواز جا سکتی ہے نہ ہی پی آئ اے کی کوئی فلائٹ۔چاند رات کی صبح تک بازاروں میں ٹُک ٹُک دیکھنے والے شریفوں کا مجمع اپنا کام بخوبی انجام دیتا ہے۔مجال ہے کہ جو کوئی چہرہ نگاہوں کو سیراب کرنے سے محروم رہ جائے۔
!اور آفرین ہے ان میک اپ زدہ چاند چہروں پر جو اپنی نظر اتروانے کے لئے بازاروں میں ضرورتاََ نہیں عادتاََ موجود ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
مہندی لگوانے کے لئے لمبے لمبے انتظار کرنا اس لئے لازم گردانا جاتا ہے کہ صاف ستھرے ہاتھ دیکھ کر لوگوں کو خوامخواہ وہم ہوگا کہ آپ کنجوس ہیں۔اور اگر خدانخواستہ آپ کے ہاتھ پیلے اور پھر کام کی زیادتی سے نیلے بھی ہو چکے ہیں تو یہ نتیجہ ازخود اخذ کرلیا جائے گا کہ آپ کے میاں سے آپ کی کوئی ناچاقی چل رہی ہے یا آپ کا شوہرِ نامدار کور ذوق واقع ہوئے ہیں۔حالانکہ کوئی بےچارہ مصیبت کا مارا میری طرح مہندی سے الرجی کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔
خیر جناب ہنگامہ ہے یوں برپا کہ جیسے اس کے بعد دنیا ختم ہوجائے گی یا پھر زندگی۔سو ہر ایک موجودہ پل کو جینے کے حق میں ہے کہ کیا پتہ کل ہو نہ ہو اور کل ہو تو ہم ہوں نہ ہوں۔پر پیوستگئیءِ شجر برقرار رکھیں کہ کل بھی ہوگی اور ہم بھی ہونگے،ایسے کوئی جلد باز اور نازک اندام تھوڑے ہی واقع ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔!!!!
......................
مامن مرزا
.استقبال کرنا کوئی ہم سے یعنی ہم پاکستانیوں سے سیکھے۔پھر خواہ وہ رمضان کے بابرکت مہینے کا ہی کیوں نہ ہو۔گھر کے راشن سے لے کر کراکری تک ایک ایک شے کی خریداری کی جاتی ہے
باقاعدہ فہرست تیار کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے کیا خریدنا ہے،کیا نہیں۔کسے دعوتِ افطار پر پکوڑے کھلانے ہیں،کسے محض شربت میں آدھ سیر گھومتی برف پر ہی ٹرخانا ہے۔
!!،آمدِ رمضان سے پہلے افطاری اور سحر کے انتظامات اس درجہ خلوص سے کئے جاتے ہیں کہ گویا ایک روزہ بھی قضا ہونا جرم ہوگا،پھر خواہ زحمت ایک روزہ رکھنے کی بھی نہ کی جائے۔۔۔۔
کچھ ایسا ہی حال عیدالفطر کی تیاری کا بھی ہوا کرتاہے۔رمضان کا آخری عشرہ ہے اور یہ بابرکت ماہ اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔کچھ اسی بلکہ اس سے کئی گنا تیزی سے عید کی تیاریاں جاری و ساری ہیں۔بازاروں میں ہجوم اور رش دیکھ کر لگتا نہیں !کہ اسی ملک کے ایک حصے سے نولاکھ افراد اپنے ہی ملک میں مہاجرین بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں خیر اسے قوم کی زندہ دلی اور ہرحال میں جینے کی ادا کہے لیتے ہیں۔بات ہو رہی تھی عید کی خریداری کی۔جو شے قبل از رمضان دو سو روپے کی ملتی تھی اب چارسو کی ہوگئی ہے۔دکان داروں اور خواتین کی جھک جھک ایک ایسی جنگ ہے جس کا اختتام اکثر خواتین کی طے کی ہوئی قمتوں پر ہوتا ہے حالانکہ جیت دکاندار کی ہوتی ہے ۔۔۔!
کپڑوں سے لے کر جوتی۔چوڑیوں سے لے کر جیولری ہر ایک شے پر ایسی افتاد آ کے پڑتی ہے کہ جیسے افطاری پر روزے دار ٹوٹتے ہیں۔ٹیلرز حضرات کے دماغ اس آسمان پر ہوتے ہیں جہاں تک نہ سوچ کی پرواز جا سکتی ہے نہ ہی پی آئ اے کی کوئی فلائٹ۔چاند رات کی صبح تک بازاروں میں ٹُک ٹُک دیکھنے والے شریفوں کا مجمع اپنا کام بخوبی انجام دیتا ہے۔مجال ہے کہ جو کوئی چہرہ نگاہوں کو سیراب کرنے سے محروم رہ جائے۔
!اور آفرین ہے ان میک اپ زدہ چاند چہروں پر جو اپنی نظر اتروانے کے لئے بازاروں میں ضرورتاََ نہیں عادتاََ موجود ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
مہندی لگوانے کے لئے لمبے لمبے انتظار کرنا اس لئے لازم گردانا جاتا ہے کہ صاف ستھرے ہاتھ دیکھ کر لوگوں کو خوامخواہ وہم ہوگا کہ آپ کنجوس ہیں۔اور اگر خدانخواستہ آپ کے ہاتھ پیلے اور پھر کام کی زیادتی سے نیلے بھی ہو چکے ہیں تو یہ نتیجہ ازخود اخذ کرلیا جائے گا کہ آپ کے میاں سے آپ کی کوئی ناچاقی چل رہی ہے یا آپ کا شوہرِ نامدار کور ذوق واقع ہوئے ہیں۔حالانکہ کوئی بےچارہ مصیبت کا مارا میری طرح مہندی سے الرجی کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔
خیر جناب ہنگامہ ہے یوں برپا کہ جیسے اس کے بعد دنیا ختم ہوجائے گی یا پھر زندگی۔سو ہر ایک موجودہ پل کو جینے کے حق میں ہے کہ کیا پتہ کل ہو نہ ہو اور کل ہو تو ہم ہوں نہ ہوں۔پر پیوستگئیءِ شجر برقرار رکھیں کہ کل بھی ہوگی اور ہم بھی ہونگے،ایسے کوئی جلد باز اور نازک اندام تھوڑے ہی واقع ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔!!!!
......................
مامن مرزا