illusionist
08-19-2014, 02:53 PM
!!!ہنگامہ ہے یوں برپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.استقبال کرنا کوئی ہم سے یعنی ہم پاکستانیوں سے سیکھے۔پھر خواہ وہ رمضان کے بابرکت مہینے کا ہی کیوں نہ ہو۔گھر کے راشن سے لے کر کراکریتک ایک ایک شے کی خریداری کی جاتی ہے
باقاعدہ فہرست تیار کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے کیا خریدنا ہے،کیا نہیں۔کسے دعوتِ افطار پر پکوڑے کھلانے ہیں،کسے محض شربت میں آدھ سیر گھومتی برف پر ہی ٹرخانا ہے۔
!!،آمدِ رمضان سے پہلے افطاری اور سحر کے انتظامات اس درجہ خلوص سے کئے جاتے ہیں کہ گویا ایک روزہ بھی قضا ہونا جرم ہوگا،پھر خواہ زحمت ایک روزہ رکھنے کی بھی نہ کی جائے۔۔۔۔
کچھ ایسا ہی حال عیدالفطر کی تیاری کا بھی ہوا کرتاہے۔رمضان کا آخری عشرہ ہے اور یہ بابرکت ماہ اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔کچھ اسی بلکہ اس سے کئی گنا تیزی سے عید کی تیاریاں جاری و ساری ہیں۔بازاروں میں ہجوم اور رش دیکھ کر لگتا نہیں کہ اسی ملک کے ایک حصے سے نولاکھ افراد اپنے ہی ملک میں مہاجرین بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
................
اللہ کا دیا بہت کچھ ہے مگر اگر خریداری کے دوران کوئی صدا لگادے "بابا مدد" تو ھمارے ہاں مظلوم میاں حضرات اس بےبسی سے جیب دیکھتے ہیں جو کہ پہلے ھی بیگم صاحبہ خالی کرچکی ھوتی ہیں . پھر جواب دیا جاتا ہے "صدائی" کو بابا معاف کرو. حالانکہ قبر کا حال مردہ جانے کے مصداق خود شوہر حضرات کی حالت رمضان اور عید کے تہوار میں " بھکاری" جیسی ہوجاتی ہے . نہ صدا لگا سکتا ہے اور نہ کوئی سننے والا.
بہرکیف اب آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ میری نظر میں عید پر مظلوم ترین شخصیت شوہر حضرات کی ہوتی ہے بلکہ دراصل قصہ نکلا تو اپنے ایک شادی شدہ مظلوم دوست کا خیال آگیا ..
خریداری , بسیارخوری اور ہوا خوری ہماری ثقافت کا بیش قیمت سرمایہ ہے اور ھماری قوم جی جان سے ان کی نہ صرف حفاظت کرتی ہے بلکہ نسل در نسل منتقل بھی کرتی ہے جیسے شادی کے بعد ساس بہو کو سونے کے مصنوئی کڑے دے کر اترا کر کہتی ہیں بہو یہ ھمارے پرکھوں کی نشانی ہے میری ساس نے دی تھی تم بھی اپنی بہو کو دینا .. اب آپ بتلائیے جو چیز صرف پڑی رہنی ہے بغیر استعمال کیے تو اس کی چوکیداری کا فائدہ یا اس کی منتقلی کے دوران اترا اترا کر فوٹو سیشن کروانے کا کوئی مقصد بنتا ہے .
بات تو تھی کچھ مگر بتنگڑ بن گیا کچھ .. حیران نہ ھوں یہ بھی ھماری ثقافت کا حصہ ہے اور آپ کی مجبوری برداشت کریں ..
یہی وجہ تھی کہ ابتدا میں اپنی لکھاری صلاحیت کے نمونے کو پیش کرنے کے لیے اس متن کا عنوان !!!ہنگامہ ہے یوں ...برپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھا .. ویسے بھی آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی آوازیں آرھی ہیں اور مارچ کے بعد اپریل فول ...
ختم شد
.استقبال کرنا کوئی ہم سے یعنی ہم پاکستانیوں سے سیکھے۔پھر خواہ وہ رمضان کے بابرکت مہینے کا ہی کیوں نہ ہو۔گھر کے راشن سے لے کر کراکریتک ایک ایک شے کی خریداری کی جاتی ہے
باقاعدہ فہرست تیار کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے کیا خریدنا ہے،کیا نہیں۔کسے دعوتِ افطار پر پکوڑے کھلانے ہیں،کسے محض شربت میں آدھ سیر گھومتی برف پر ہی ٹرخانا ہے۔
!!،آمدِ رمضان سے پہلے افطاری اور سحر کے انتظامات اس درجہ خلوص سے کئے جاتے ہیں کہ گویا ایک روزہ بھی قضا ہونا جرم ہوگا،پھر خواہ زحمت ایک روزہ رکھنے کی بھی نہ کی جائے۔۔۔۔
کچھ ایسا ہی حال عیدالفطر کی تیاری کا بھی ہوا کرتاہے۔رمضان کا آخری عشرہ ہے اور یہ بابرکت ماہ اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔کچھ اسی بلکہ اس سے کئی گنا تیزی سے عید کی تیاریاں جاری و ساری ہیں۔بازاروں میں ہجوم اور رش دیکھ کر لگتا نہیں کہ اسی ملک کے ایک حصے سے نولاکھ افراد اپنے ہی ملک میں مہاجرین بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
................
اللہ کا دیا بہت کچھ ہے مگر اگر خریداری کے دوران کوئی صدا لگادے "بابا مدد" تو ھمارے ہاں مظلوم میاں حضرات اس بےبسی سے جیب دیکھتے ہیں جو کہ پہلے ھی بیگم صاحبہ خالی کرچکی ھوتی ہیں . پھر جواب دیا جاتا ہے "صدائی" کو بابا معاف کرو. حالانکہ قبر کا حال مردہ جانے کے مصداق خود شوہر حضرات کی حالت رمضان اور عید کے تہوار میں " بھکاری" جیسی ہوجاتی ہے . نہ صدا لگا سکتا ہے اور نہ کوئی سننے والا.
بہرکیف اب آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ میری نظر میں عید پر مظلوم ترین شخصیت شوہر حضرات کی ہوتی ہے بلکہ دراصل قصہ نکلا تو اپنے ایک شادی شدہ مظلوم دوست کا خیال آگیا ..
خریداری , بسیارخوری اور ہوا خوری ہماری ثقافت کا بیش قیمت سرمایہ ہے اور ھماری قوم جی جان سے ان کی نہ صرف حفاظت کرتی ہے بلکہ نسل در نسل منتقل بھی کرتی ہے جیسے شادی کے بعد ساس بہو کو سونے کے مصنوئی کڑے دے کر اترا کر کہتی ہیں بہو یہ ھمارے پرکھوں کی نشانی ہے میری ساس نے دی تھی تم بھی اپنی بہو کو دینا .. اب آپ بتلائیے جو چیز صرف پڑی رہنی ہے بغیر استعمال کیے تو اس کی چوکیداری کا فائدہ یا اس کی منتقلی کے دوران اترا اترا کر فوٹو سیشن کروانے کا کوئی مقصد بنتا ہے .
بات تو تھی کچھ مگر بتنگڑ بن گیا کچھ .. حیران نہ ھوں یہ بھی ھماری ثقافت کا حصہ ہے اور آپ کی مجبوری برداشت کریں ..
یہی وجہ تھی کہ ابتدا میں اپنی لکھاری صلاحیت کے نمونے کو پیش کرنے کے لیے اس متن کا عنوان !!!ہنگامہ ہے یوں ...برپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رکھا .. ویسے بھی آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی آوازیں آرھی ہیں اور مارچ کے بعد اپریل فول ...
ختم شد