ayesha
08-14-2014, 06:52 PM
میں اب سڑک پر تیز رفتاری کے ساتھ واپس جارہا ہوں، واپسی کا سفر میں ہمیشہ تیزی سے کرتا ہوں۔واپسی کا سفر ہر ایک تیزی سے کرتا ہے۔بعض دفعہ یہ سڑک مجھے پاکستان لگتی ہے اور ہر روز صبح ایک گھنٹے کی یہ واک اپنی زندگی کے پچھلے 69 سال،پچھلے 54 سال میں نے اس ملک میں گزارے ہیں۔میرے حصے میں یہاں سب کچھ آیا،اِس مٹی نے مجھے خواب دیکھنا سکھایا۔۔۔۔۔۔پھر اِس کی تعبیر دی۔۔۔میں نے اِس مٹی کو ہر بار وہ دیا جو اِس نے مجھ سے مانگا۔۔۔روپے کی دفعہ روپیہ،وقت کی دفعہ وقت اور خون کی دفعہ خون۔۔۔۔۔اور مجھے یہ ملک کبھی خالی نہیں لگا۔
مجھے کبھی اِس چھوٹے ترقی پذیر،گندے،ٹوٹی سڑکوں والے ملک کا شہری ہونے پر شرمندگی نہیں ہوئی۔۔۔شاید اِس وجہ سے کیوں کہ میں نے کبھی اِس کے مسائل میں اضافہ نہیں کیا۔۔۔میں نے ہمیشہ اپنے پاس سے موجود سب سے بہترین شے دی۔۔۔۔۔آج آپ سے آپ کا گھر چھین لیا جائے اور پھر آپ لڑتے جھگڑتے میری طرح خون دیکر اُس گھر کو واپس لیں تو پھر آپ کو وہ ٹوٹا پھوٹا،گندا گھر جنت سے کم نہیں لگے گا۔تب آپ کسی کو اُس کی دیوار پر ہاتھ تک نہیں رکھنے دیں گے،کہاں یہ کہ کسی کو اندر آنے دیں۔
میں نے اپنے ڈرائنگ روم میں وہ میڈل رکھا ہوا ہے جو نعمان کی شہادت کے بعد دیا گیا تھا۔شاید یہ میرے وطن کی طرف سے میری اُن خدمات کا اعتراف ہے جو میں نے۔۔۔۔۔۔
ہر سال اگست کو میں اِس ہی طرح اپنے ماضی کے بارے میں سوچتا ہوں، اِس سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں کی وہی باتیں سُنتے ہوئے۔
"اِس ملک میں کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ہم نے کینیڈا کی امیگریشن کےلیے اپلائی کیا ہوا ہے۔"
"Across the borders we are one"
مجھے اِس سب کے باوجود یہیں رہنا ہے۔یہیں جینا ہے۔۔۔۔۔یہیں مرنا ہے۔۔۔
"کیا آپ میری طرح قربانی دے کر جینا اور مرنا سیکھ سکتے ہیں؟"
مُٹھی بھر مٹی۔ عمیرہ احمد
مجھے کبھی اِس چھوٹے ترقی پذیر،گندے،ٹوٹی سڑکوں والے ملک کا شہری ہونے پر شرمندگی نہیں ہوئی۔۔۔شاید اِس وجہ سے کیوں کہ میں نے کبھی اِس کے مسائل میں اضافہ نہیں کیا۔۔۔میں نے ہمیشہ اپنے پاس سے موجود سب سے بہترین شے دی۔۔۔۔۔آج آپ سے آپ کا گھر چھین لیا جائے اور پھر آپ لڑتے جھگڑتے میری طرح خون دیکر اُس گھر کو واپس لیں تو پھر آپ کو وہ ٹوٹا پھوٹا،گندا گھر جنت سے کم نہیں لگے گا۔تب آپ کسی کو اُس کی دیوار پر ہاتھ تک نہیں رکھنے دیں گے،کہاں یہ کہ کسی کو اندر آنے دیں۔
میں نے اپنے ڈرائنگ روم میں وہ میڈل رکھا ہوا ہے جو نعمان کی شہادت کے بعد دیا گیا تھا۔شاید یہ میرے وطن کی طرف سے میری اُن خدمات کا اعتراف ہے جو میں نے۔۔۔۔۔۔
ہر سال اگست کو میں اِس ہی طرح اپنے ماضی کے بارے میں سوچتا ہوں، اِس سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں کی وہی باتیں سُنتے ہوئے۔
"اِس ملک میں کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ہم نے کینیڈا کی امیگریشن کےلیے اپلائی کیا ہوا ہے۔"
"Across the borders we are one"
مجھے اِس سب کے باوجود یہیں رہنا ہے۔یہیں جینا ہے۔۔۔۔۔یہیں مرنا ہے۔۔۔
"کیا آپ میری طرح قربانی دے کر جینا اور مرنا سیکھ سکتے ہیں؟"
مُٹھی بھر مٹی۔ عمیرہ احمد