Mrs.Qaisar
07-15-2014, 02:31 PM
"نوجوان نسل اور اعصابی تناؤ"
.
.
.
قیدِ حیات و بند و غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
دیکھا جائے تو آج دُنیا میں کہیں بھی کوئی بھی ایسا انسان نہیں ھو گا جو کسی پریشانی میں مبتلا نہ ھو۔امیر، غریب، چھوٹا، بڑا، جوان، بوڑھا،ہر کوئی اپنے اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔۔۔۔کبھی یہ مسائل نئی نئی الجھنوں کو جنم دیتے ہیں تو کبھی مزید الجھ جاتے ہیں۔۔۔
تمام مسائل حل کا حل جاننے کے باوجود انسان غیروں کی چوکھٹ پے مدد مانگنے جاتا ہے۔۔۔حالانکہ اللّہ پاک نے تو ہماری تمام مشکلات کا حل آج سے 1400 سال پہلے ہی ہمیں بتا دیا ہے۔۔۔لیکن ہم اس کی طرف جانے سے کیوں کتراتے ہیں?۔۔۔کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا حل اللّہ کے عطا کئے ہوئے نسخے میں تو تلاش کرتے نہیں مگر غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس نہیں کرتے???
ہاں جی۔۔۔۔کوئی جو بھی سمجھے ۔۔۔مگر میرے نزدیک ہر شخص کی پریشانی، مشکلات، اداسی، بے چینی، اضطراب اور الجھنوں کی وجہ کچھ اور نہیں مگر صرف اور صرف اپنے دین سے دُوری اور اپنے ربّ کی نافرمانی ہے۔۔۔تبھی تو جناب اقبال نے فرمایا۔۔۔
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
ایک دور تھا کہ مسلمان ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے مگر آج مسلمان ایک دوسرے کی جان لے رہے ہیں۔۔۔
ایسے میں اللّہ کا عذاب قدرتی آفات، اعصابی تناؤ، معاشی و معاشرتی مسائل کی شکل میں ہم پر کیوں نہ برسے۔۔۔!
ہم پڑھائی میں اچھی پوزیشن لینے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں۔۔۔یہاں تک کہ کھانا پینا۔۔۔نماز قرآن سب بھول جاتے ہیں۔۔۔پھر جب اچھے مارکس نہ آئیں تو قصوروار کسے ٹھراتے ہیں۔۔۔?اللّہ کو۔۔۔۔!
ایک عورت جو شوگر کی مریضہ ہے،اس کے تین بیٹوں میں سے دو بم دھماکے میں موت کی نیند سو جاتے ہیں،تیسرے کو نوکری نہیں ملتی،شوہر بھی بیمار رہتا ہے،اوپر سے مکان کا کرایہ،بِل،دوائیوں کے پیسے۔۔۔ان سب کا بھی قصوروار کون۔۔۔۔۔?اللّہ۔۔۔!
میں نے خود ایک پریشان حال عورت کو اپنی جواں سال بیٹی کی موت پر کچھ اس طرح بین کرتے دیکھا ہے:
"سب کہتے تھے کہ اللّہ میری بیٹی کو ٹھیک کر دے گا۔۔۔۔وہ ٹھیک ہو کر گھر واپس آ جائے گی۔۔۔۔اب بلاؤ اپنے اللّہ کو اور کہو اسے کہ ڈالے جان میری بیٹی میں۔۔۔۔زندا کر کے دکھائے اس کو۔۔۔۔"
انّ للّہ و انّ الیہ راجعون
ہم کیوں اپنے تمام مسائل اور پریشانیوں کا قصوروار اللّہ کو ٹہراتے ہیں?حالانکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اللّہ کے کتنے فرمانبردار ہیں۔۔۔!
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ اللّہ اپنے محبوب بندوں کو ھہ آزمائش میں ڈالتا ہے۔۔۔۔مگر پہلے ہم یہ تو جان لیں کہ کیا ہم اللّہ کا بندہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔۔۔محبوب ہونا تو د بہت دُور کی بات ہے۔۔۔۔
شکلِ اطمینان کب اس عالمِ فانی میں ہے
کامیابی بھی جہان ہے اک پریشانی میں ہے
پریشانیاں تو نیک لوگوں کی زندگی میں بھی آتی ہیں مگر وہ صبر اور شکر کے ساتھ ہر پریشانی کو اللّہ پاک پہ بھروسہ رکھتے ہوئے عبور کا لیتے ہیں۔۔۔۔اور ہم جیسے گنہگار لوگ اللّہ کو قصوروار ٹہراتے ہیں۔۔۔۔
جبکہ قصوروار ہم خود ہیں۔۔۔۔اپنی پریشانیوں، مشکلات، اُداسی، بے چینی، اضطراب اور الجھنوں کی وجہ صرف اور صرف ہماری اپنی ذات ہے۔۔۔۔کیونکہ ہم اللّہ صرف مانتے ہیں۔۔۔اس کی عبادت نہیں کرتے۔۔۔۔
آئیں اور جانیں ان تمام پریشانیوں، مشکلات، اداسی، بے چینی، اضطراب اور الجھنوں کا تدارک کیسے کیا جائے۔۔۔
ہم کیوں نہ اس اللّہ کے ہو جائیں جو صرف ہمارا ہے۔۔۔
کیوں نہ دن میں پانچ مرتبہ اس کی بارگاہ میں شہنی و قلبی حاضری دیا کریں۔۔۔۔کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ بے شک دلوں کا سکون اللّہ کے ذکر میں ہے۔۔۔۔اور یہ کہ مشکل وقت میں صبر اور نماز بہترین سہارا ہیں۔۔۔جب تک اللّہ ہم سے ناراض ہے۔۔۔ہم سکون حاصل نہیں کر سکتے۔۔۔۔اللّہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم اس کو پسند آ جائیں۔۔۔اور اس کو راضی کر سکیں۔۔۔
آمین
ثم آمین
دُعا گو
آمنہ رانی
.
.
.
قیدِ حیات و بند و غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
دیکھا جائے تو آج دُنیا میں کہیں بھی کوئی بھی ایسا انسان نہیں ھو گا جو کسی پریشانی میں مبتلا نہ ھو۔امیر، غریب، چھوٹا، بڑا، جوان، بوڑھا،ہر کوئی اپنے اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔۔۔۔کبھی یہ مسائل نئی نئی الجھنوں کو جنم دیتے ہیں تو کبھی مزید الجھ جاتے ہیں۔۔۔
تمام مسائل حل کا حل جاننے کے باوجود انسان غیروں کی چوکھٹ پے مدد مانگنے جاتا ہے۔۔۔حالانکہ اللّہ پاک نے تو ہماری تمام مشکلات کا حل آج سے 1400 سال پہلے ہی ہمیں بتا دیا ہے۔۔۔لیکن ہم اس کی طرف جانے سے کیوں کتراتے ہیں?۔۔۔کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا حل اللّہ کے عطا کئے ہوئے نسخے میں تو تلاش کرتے نہیں مگر غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس نہیں کرتے???
ہاں جی۔۔۔۔کوئی جو بھی سمجھے ۔۔۔مگر میرے نزدیک ہر شخص کی پریشانی، مشکلات، اداسی، بے چینی، اضطراب اور الجھنوں کی وجہ کچھ اور نہیں مگر صرف اور صرف اپنے دین سے دُوری اور اپنے ربّ کی نافرمانی ہے۔۔۔تبھی تو جناب اقبال نے فرمایا۔۔۔
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
ایک دور تھا کہ مسلمان ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے مگر آج مسلمان ایک دوسرے کی جان لے رہے ہیں۔۔۔
ایسے میں اللّہ کا عذاب قدرتی آفات، اعصابی تناؤ، معاشی و معاشرتی مسائل کی شکل میں ہم پر کیوں نہ برسے۔۔۔!
ہم پڑھائی میں اچھی پوزیشن لینے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں۔۔۔یہاں تک کہ کھانا پینا۔۔۔نماز قرآن سب بھول جاتے ہیں۔۔۔پھر جب اچھے مارکس نہ آئیں تو قصوروار کسے ٹھراتے ہیں۔۔۔?اللّہ کو۔۔۔۔!
ایک عورت جو شوگر کی مریضہ ہے،اس کے تین بیٹوں میں سے دو بم دھماکے میں موت کی نیند سو جاتے ہیں،تیسرے کو نوکری نہیں ملتی،شوہر بھی بیمار رہتا ہے،اوپر سے مکان کا کرایہ،بِل،دوائیوں کے پیسے۔۔۔ان سب کا بھی قصوروار کون۔۔۔۔۔?اللّہ۔۔۔!
میں نے خود ایک پریشان حال عورت کو اپنی جواں سال بیٹی کی موت پر کچھ اس طرح بین کرتے دیکھا ہے:
"سب کہتے تھے کہ اللّہ میری بیٹی کو ٹھیک کر دے گا۔۔۔۔وہ ٹھیک ہو کر گھر واپس آ جائے گی۔۔۔۔اب بلاؤ اپنے اللّہ کو اور کہو اسے کہ ڈالے جان میری بیٹی میں۔۔۔۔زندا کر کے دکھائے اس کو۔۔۔۔"
انّ للّہ و انّ الیہ راجعون
ہم کیوں اپنے تمام مسائل اور پریشانیوں کا قصوروار اللّہ کو ٹہراتے ہیں?حالانکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اللّہ کے کتنے فرمانبردار ہیں۔۔۔!
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ اللّہ اپنے محبوب بندوں کو ھہ آزمائش میں ڈالتا ہے۔۔۔۔مگر پہلے ہم یہ تو جان لیں کہ کیا ہم اللّہ کا بندہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔۔۔محبوب ہونا تو د بہت دُور کی بات ہے۔۔۔۔
شکلِ اطمینان کب اس عالمِ فانی میں ہے
کامیابی بھی جہان ہے اک پریشانی میں ہے
پریشانیاں تو نیک لوگوں کی زندگی میں بھی آتی ہیں مگر وہ صبر اور شکر کے ساتھ ہر پریشانی کو اللّہ پاک پہ بھروسہ رکھتے ہوئے عبور کا لیتے ہیں۔۔۔۔اور ہم جیسے گنہگار لوگ اللّہ کو قصوروار ٹہراتے ہیں۔۔۔۔
جبکہ قصوروار ہم خود ہیں۔۔۔۔اپنی پریشانیوں، مشکلات، اُداسی، بے چینی، اضطراب اور الجھنوں کی وجہ صرف اور صرف ہماری اپنی ذات ہے۔۔۔۔کیونکہ ہم اللّہ صرف مانتے ہیں۔۔۔اس کی عبادت نہیں کرتے۔۔۔۔
آئیں اور جانیں ان تمام پریشانیوں، مشکلات، اداسی، بے چینی، اضطراب اور الجھنوں کا تدارک کیسے کیا جائے۔۔۔
ہم کیوں نہ اس اللّہ کے ہو جائیں جو صرف ہمارا ہے۔۔۔
کیوں نہ دن میں پانچ مرتبہ اس کی بارگاہ میں شہنی و قلبی حاضری دیا کریں۔۔۔۔کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ بے شک دلوں کا سکون اللّہ کے ذکر میں ہے۔۔۔۔اور یہ کہ مشکل وقت میں صبر اور نماز بہترین سہارا ہیں۔۔۔جب تک اللّہ ہم سے ناراض ہے۔۔۔ہم سکون حاصل نہیں کر سکتے۔۔۔۔اللّہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم اس کو پسند آ جائیں۔۔۔اور اس کو راضی کر سکیں۔۔۔
آمین
ثم آمین
دُعا گو
آمنہ رانی