smartguycool
03-07-2018, 01:05 PM
میاں شہباز شریف جو اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ نون لیگ کے صدر بھی ہیں۔ انہوں نے سینٹ کے الیکشن جو 3 مارچ 2018 کو ہوئے، نتیجہ سامنے آنے کے بعد اپنے دلی جذبات کا اظہار رضی اختر شوقؔ کے ایک شعر کے پہلے مصرعے سے کیا، ’ہم روح سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان‘۔ مکمل شعر کچھ اس طرح ہے
ہم روح سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
شعر بتارہا ہے کہ یہ شعری ھنر مندی اور مہارت شہباز شریف کے بس کی بات نہیں کہ وہ ایسا بر محل اور با معنی شعر کہیں، اس میں شک نہیں کہ وہ اپنی پرجوش تقریروں میں خوب شعر گوئی کرتے رہے ہیں لیکن وہ سب رٹے رٹائے، مخصوص قسم کے شعر ہوتے ہیں۔ حبیب جالبؔ ان کے پسندیدہ شاعر دکھائی دیتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کے مشیر برائے علمی و ادبی، لوک ورثہ کالم نگار، بعض کا تو خیال یہ بھی ہے کہ نواز شریف اپنی نا اہلی کے بعد جو علمی و ادبی چاشنی سے بھر پور لکھی ہوئی تقریریں پڑھ رہے ہیں وہ مشیر خاص کی ہی تحریر کردہ ہیں۔ وزارت اعظمیٰ سے نااہل پھر نون لیگ کی صدارت سے ہاتھ دھو لینے کے بعد نون لیگ کی صدارت شہباز شریف کو منتقل ہوئی تو جناب عرفان صدیقی کی علمی و ادبی خدمات بڑے میاں صاحب سے چھوٹے میاں صاحب کو منتقل ہو گئیں ہیں اور یہ شعر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ اصل بات جو کہنا تھی وہ اس شعر میں پنہا ہے، اس شعر کا دوسرا مصرعہ ’کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ‘۔ تو نام بدلا ہے باقی سب کچھ تو وہی ہے۔ یعنی بڑے میاں صاحب اب شہباز شریف کے نام سے میدان میں آگئے ہیں۔ شعر کا ادبی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شعر میں ’روح سفر‘ کا تعلق بہت ہی منفرد اور خوبصورت ترکیب ہے، یہ ترکیب شاعرانہ نقطہ نگاہ سے مخصوص نظریاتی، پر جوش اور سرگرم عمل لوگوں پر صادق آتی ہے۔ اس مصرعے کے توسط سے شہباز شریف یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اور نون لیگی نظریاتی طور پر پرجوش اور سرگرم عمل لوگ ہیں، وہ اپنے بنیادی مقصد یعنی اقتدار کو ختم نہیں ہونے دیں گے اگر ایک نام نہ رہا تو کیا ہوا وہ دوسرے نام سے، کسی اور تحریک کی صورت میں واپس آجائیں گے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت روح سفر ہی ہیں۔ شہباز شریف، نواز شریف کا دوسرا نام ہی نہیں بلکہ خون ہی ایک ہے۔ یہی نہیں بلکہ شریف خاندان کے چند شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بھی روح سفر ہیں، جیسے مریم نواز ان کے شوہر نامدار کیپٹن صفدر، عابد شیر علی، رانا ثناء اللہ، دانیال عزیز، مشاہد اللہ خان، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید شامل ہیں۔ شہباز شریف کو اب یہ اشعار بھی ٹوئیٹ کرنا چاہیے۔ یہ شاعری میاں صاحبان کے کسی محبت کرنے والے نے سوشل میڈیا پر کی ہے۔
پوری قوم کی آواز ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی نواز ہوں
ہر دل کا ساز ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی نواز ہوں
امت مسلماں کا ساز ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی نواز ہوں
میاں شہباز شریف کے حوالے سے ایک یہ شعر بھی کسی نے کہا
چھپا رہا جو برسوں تم سے، ترقی کا وہ راز ہوں
میرا بھی احتساب کرو، میں بھی نواز ہوں
بعض روحیں بڑی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح نواز شریف اور شہباز شریف کی روح سفر ہو جائیں وہ ایسی بد روحیں ہیں کہ جنہوں نے نواز شریف کی وفادری میں عدلیہ کی اِسی توہین کی کہ عدلیہ نے ایک روح کو پانچ سال کے لیے نااہل، پچاس ہزار جرمانہ اور ایک ماہ کی قید سنا دی، اس روح نے ایک ماہ کی قید کاٹی جوں ہی باہر کی ہوا لگی، نصیحت پکڑنا تو دور کی بات اس کے اندر کا وفادار زیادہ جوش اور جذبے سے باہر آ گیا اور اس نے اپنی سابقہ روش کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ دو ہاتھ آگے ہی چلا گیا۔ کچھ شاہ کے وفاداروں کو عدالت نے توہین عددالت کے نوٹسز جاری کیے ہوئے ہیں، باہر تو یہ شیر ہوتے ہیں، کچھ تو نام کے بھی شیر ہیں لیکن عدالت میں بکری بنے دکھائی دیتے ہیں۔ تحریری معافی نامہ لکھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان شاہ کے وفاداروں کے خلاف عدالت کیا معاملہ کرتی ہے۔ البتہ عدالت عالیہ نے باپ، بیٹی کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ جو جی میں آتا ہے وہ کھلے عام کبھی اشاروں کناروں میں عدالت اور اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ایک اور وفادار جنہیں میاں صاحب ماضی میں کان پکڑ کر باہرکر چکے ہیں نے کہا کہ’ ایک ادارے نے گورننس اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اس طرز عمل سے ملک معلق ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ کو ایکشن لینا ہوگا، ججز سے ادب سے کہتا ہوں کہ وہ اپنا کام کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں، اگر وہ ہمارا کام کریں گے تو پھر ہمیں قانون سازی کرنا پڑے گی‘۔ یہ فرمانا ہے قبلہ مشاہد اللہ خان صاحب کا۔ شاید وہ یہ بھول گئے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کے توسط سے نااہل کو اہل قرار دے چکی، کیا ہوا اس قانون کا ؟ عدالت نے اسے اڑا کر پھینک دیا، صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس قسم کی بیان بازی معاملات کو اور زیادہ خراب کررہی ہے۔ سینٹ کے انتخابات 2018 ء کے انتخابات کا خوف ناک نقشہ کھینچتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خریدار اور بکنے والے اپنے اعمال میں کیا اضافہ کر رہے ہیں۔ کتنا کام آئے گا اقتدار اور کتنا کام آئے گی ناجائز دولت ایک نہ ایک دن تو خریدار اور بکنے والے کو سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے چلے ہی جانا ہو گا۔ سب کچھ اسی دنیا میں دھرا رہ جائے گا۔
نواز شریف کتنی ہی بہادری دکھاتے رہیں لیکن جوں ہی عدالت کوئی فیصلہ کرتی ہے وہ چپ کر کے اس پر عمل کر تے ہوئے باہر آکر شیر سے ببر شیر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ عدالت نے وزارت اعظمیٰ سے نا اہل کیا، اگلے ہی روز وزیر اعظم ہائوس سے تو باہر آگئے لیکن باہر نکل کر لگائی تڑی کہ اب کے نکال کر دکھاؤ، دوبارہ پارٹی کی صدارت سے نا اہل کیا، فوراً صدارت چھوڑ دی، باہر نکلے اور تڑی لگائی، اب کے نکال کر دکھاؤ، اب وزارت اعظمیٰ پر تو شریف خون نہیں یا پھر مصلحت سے کام لیا گیا، مریم بی بی تو پرجوش تھیں اس عہدہ پر براجمان ہونے کے لیے لیکن کیا مصلحت آڑے آئی نہیں معلوم، وزارت اعظمیٰ کا قرعہ خاقان عباسی کے نام نکلا، کچھ دائیں بائیں رہنے والوں نے اپنی سبکی محسوس کی اور انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹا لیا، پارٹی کی صدارت کے لیے اپنا ہی خون زیادہ بہتر لگا، اب وہ بیٹی یا بھائی دونوں میں سے ایک کا انتخابات ہی ہونا تھا، قرعہ فعال چھوٹے میں صاحب کے نام نکلا حالانکہ ان پر پنجاب کی حکمرانی کی بھاری ذمہ داری پہلے ہی تھی۔ لیکن اس میں بھی مصلحت اور سیاست ہی کار فرما ہے۔ میاں صاحب نے سو جتن کر لیے، جتنی تڑی دے سکتے تھے دے ڈالی، پر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا، نہ ہی میاں صاحب کی تڑی سے خوف زدہ کوئی دکھائی دیا، اب مسئلے کے حل کا دوسرا حل بیک ڈور ڈپلومیسی ہمیشہ سے ہی چلی آ رہی ہے۔ بڑے بڑے معاملات ظاہر میں کچھ ہوا کرتے تھے پر بیک ڈور ڈپلومیسی سے کوئی نہ کوئی حل سامنے آتا رہا ہے۔ میاں صاحب اس کا بھی خوب تجربہ رکھتے ہیں، دوستیاں میاں صاحب کے کام آتی رہی ہیں، لیکن اس بار میاں صاحب سخت گرفت میں آچکے ہیں، بقول ان کے مخالفین میاں صاحب اللہ کی پکڑ میں آئے ہوئے ہیں۔ پر ہیں مضبوط اعصاب اور بلند حوصلے کے مالک۔ میاں صاحب دل کے مریض، بیگم صاحبہ لندن میں اپنے مرض سے جنگ میں مصروفِ عمل لیکن میاں صاحب نے میدان سیاست کو بھر پور طریقے سے سجایا ہوا ہے۔ کامیابی یا ناکامی وقت بتائے گا۔
18 گریٹ کا افسر گرفتار ہوا تو حکومت نے اس کی 19 گریڈ میں ترقی کے آڈر جاری کر دیے، عدالت نے پوچھا کہ گریڈ 19 کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے، چیف سیکریٹری نے بتایا کہ ایک لاکھ کے قریب ہو گی، جب یہ پوچھا کہ احد چیمہ کتنے پیسے لیتا تھا تو وہ 15 لاکھ بتائی گئی۔
میاں صاحب کی سیاست کا بیانیہ سخت اور مختلف ہے، وہ اپنے بیانیہ پر سختی سے کاربند ہیں، ان کے قریبی درباری ان سے زیادہ شدت سے اداروں کے بارے پر تنقیدکرتے نظر آتے ہیں۔ شہباز شریف کا بیانیہ مختلف رہا ہے اور اب بھی وہی ہے۔ ان کا مزاج شروع ہی سے میانہ رہا ہے۔ ایک اعتبار سے شہباز شریف کا پارٹی صدارت کے لیے انتخاب میاں صاحب کے لیے یا مسلم لیگ کے حق میں مناسب نظر آتا ہے۔ ماضی میں دیکھا جائے تو شہباز شریف نے انتخابات میں خوب سیاست کی، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد وہ پنجاب کی ترقی میں لگے رہے، کام بھی کیا، ان کے اچھے کاموں کی مخالفین بھی مثال دیتے ہیں۔ وہ بیوروکریسی کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے میں بھی اچھی شہرت رکھتے ہیں، جس کی مثال حال ہی میں ان کے ایک قریبی رائٹ ھینڈ مین احد چیمہ کی ہے جس کو نیب نے گرفتار کیا تو حکومت پنجاب کی آشیر باد سے پنجاب کی بیوروکریسی نے تالا بند ہڑتال کی جو ناکام ہو گئی لیکن اس واقع سے یہ بات کھل کر ثابت ہو گئی کہ شہباز شریف کو احد چیمہ کی گرفتاری کی بہت فکر اور خطرہ نظر آرہا ہے، بعض تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ آگے جاکر یہ شخص چھوٹے میاں صاحب کے خلاف گواہ نہ بن جائے۔ یہی وجہ تھی کہ پوری پنجاب حکومت نے احد چیمہ کی گرفتاری پر واویلا مچایا یہاں تک کہ پنجاب اسمبلی میں اس کی حمایت میں قرار داد بھی منظور کرالی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے احد چیمہ کی گرفتاری پر بیورو کریٹس کی ہڑتال پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تنبیہہ کی اور کہا کہ جس کو جانا ہے چلا جائے، ہڑتال کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ صدارت سنبھالتے ہی شہباز شریف پر احد چیمہ کی گرفتاری کا بم گر پڑا، ایک جانب احد چیمہ کو محنتی افسر کہا جارہا ہے تو دوسری جانب آمدنی سے بڑھ کر اثاثے، 18 گریٹ کا افسر گرفتار ہوا تو حکومت نے اس کی 19 گریڈ میں ترقی کے آڈر جاری کر دیے، عدالت نے پوچھا کہ گریڈ 19 کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے، چیف سیکریٹری نے بتایا کہ ایک لاکھ کے قریب ہو گی، جب یہ پوچھا کہ احد چیمہ کتنے پیسے لیتا تھا تو وہ 15 لاکھ بتائی گئی۔ یہ تو جائز طریقے کی آمدنی ہے۔ دیگر جائیداد و اثاثہ جات اب نیب میں سامنے آ رہے ہیں۔ باقی ماندہ جلد سامنے آجائیں گے۔
بات شہباز شریف کے ٹوئیت کے مصرعہ سے شروع کی تھے۔ جس میں شہباز شریف نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اور دیگر نون لیگی ’ہم روح سفر‘ ہیں، وہ اپنی مسلسل کاوش، جہت اور مقصد کو ہر صورت جاری رکھیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ نام سے کیا ہوتا ہے۔ خون ایک ہے، سوچ ایک ہے، البتہ دونوں کے کام کا انداز اور تعلقات کا انداز مختلف ہے، سب لیگی مسلسل کاوش اور جدوجہد چاہتے ہیں۔ شہباز کا طریقہ کار ممکن ہے مستقبل میں شریف فیملی کو کچھ ریلیف دے جائے، نرم رویہ، اداروں سے عدم ٹکراؤ کی پالیسی، اداروں کے سربراہوں سے اچھے تعلقات، پارٹی میں بھی شہباز قدرِ اعتدال پسند تصور کیے جاتے ہیں۔ چوہدری نثار کی مثال سامنے ہے وہ صاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ وہ’ میاں نواز شریف کے ماتحت کام کرنے کو تیار ہیں، وہ شہباز کے انڈر میں کام کرنے کو بھی تیار ہیں لیکن وہ مریم نواز کے ماتحت انہیں میڈیم او ر سر کہنے کے لیے تیار نہیں‘۔ اگر مریم نواز پارٹی صدارت کی حق دار ٹہرتیں تو پارٹی میں زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جانا تھا۔ وہ عمل تو اب بھی شروع ہو چکا ہے۔ سینٹ الیکشن نے پارٹی میں کئی ناراض اور مخالفین کی نشاندھی کر دی ہے، کچھ تو اعلانیہ نون لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے کہا جارہا ہے پنجاب کے 27 نون لیگی ایسے ہیں جنہوں نے نون لیگ کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ آئندہ الیکشن تک یہ اراکین کھل کر نون لیگ سے بغاوت کر لیں گے۔ اس ٹوٹ پھوٹ میں تیزی بھی آسکتی ہے، وہ ایم کیو ایم کی طرح مختلف دھڑوں میں تقسیم نہ بھی ہوئی تو اس کے بڑے بڑے گروپس پی ٹی آئی اور پی پی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اب یہ شہباز شریف کی پالیسی پر منحصر ہے کہ وہ پارٹی کو کس طرح ایک رکھتے ہیں۔ زرداری صاحب نے کہا تھا کہ’ وہ چار سال سیاست نہیں کریں گے، پانچویں سال سیاست میں بھر پور کردار ادا کریں گے ‘، انہوں نے ایسا کر دکھایا، سیاست میں ان کی انٹری بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں سامنے آئی اور اب سینٹ کے الیکشن میں ان کا کردار دنیا نے دیکھا۔ دیکھیں نون لیگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کوئی شک نہیں شہباز شریف روح سفر ہیں۔
بشکریہ ..... رئیس احمد صمدانی
ہم روح سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
شعر بتارہا ہے کہ یہ شعری ھنر مندی اور مہارت شہباز شریف کے بس کی بات نہیں کہ وہ ایسا بر محل اور با معنی شعر کہیں، اس میں شک نہیں کہ وہ اپنی پرجوش تقریروں میں خوب شعر گوئی کرتے رہے ہیں لیکن وہ سب رٹے رٹائے، مخصوص قسم کے شعر ہوتے ہیں۔ حبیب جالبؔ ان کے پسندیدہ شاعر دکھائی دیتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کے مشیر برائے علمی و ادبی، لوک ورثہ کالم نگار، بعض کا تو خیال یہ بھی ہے کہ نواز شریف اپنی نا اہلی کے بعد جو علمی و ادبی چاشنی سے بھر پور لکھی ہوئی تقریریں پڑھ رہے ہیں وہ مشیر خاص کی ہی تحریر کردہ ہیں۔ وزارت اعظمیٰ سے نااہل پھر نون لیگ کی صدارت سے ہاتھ دھو لینے کے بعد نون لیگ کی صدارت شہباز شریف کو منتقل ہوئی تو جناب عرفان صدیقی کی علمی و ادبی خدمات بڑے میاں صاحب سے چھوٹے میاں صاحب کو منتقل ہو گئیں ہیں اور یہ شعر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ اصل بات جو کہنا تھی وہ اس شعر میں پنہا ہے، اس شعر کا دوسرا مصرعہ ’کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ‘۔ تو نام بدلا ہے باقی سب کچھ تو وہی ہے۔ یعنی بڑے میاں صاحب اب شہباز شریف کے نام سے میدان میں آگئے ہیں۔ شعر کا ادبی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شعر میں ’روح سفر‘ کا تعلق بہت ہی منفرد اور خوبصورت ترکیب ہے، یہ ترکیب شاعرانہ نقطہ نگاہ سے مخصوص نظریاتی، پر جوش اور سرگرم عمل لوگوں پر صادق آتی ہے۔ اس مصرعے کے توسط سے شہباز شریف یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اور نون لیگی نظریاتی طور پر پرجوش اور سرگرم عمل لوگ ہیں، وہ اپنے بنیادی مقصد یعنی اقتدار کو ختم نہیں ہونے دیں گے اگر ایک نام نہ رہا تو کیا ہوا وہ دوسرے نام سے، کسی اور تحریک کی صورت میں واپس آجائیں گے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت روح سفر ہی ہیں۔ شہباز شریف، نواز شریف کا دوسرا نام ہی نہیں بلکہ خون ہی ایک ہے۔ یہی نہیں بلکہ شریف خاندان کے چند شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بھی روح سفر ہیں، جیسے مریم نواز ان کے شوہر نامدار کیپٹن صفدر، عابد شیر علی، رانا ثناء اللہ، دانیال عزیز، مشاہد اللہ خان، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید شامل ہیں۔ شہباز شریف کو اب یہ اشعار بھی ٹوئیٹ کرنا چاہیے۔ یہ شاعری میاں صاحبان کے کسی محبت کرنے والے نے سوشل میڈیا پر کی ہے۔
پوری قوم کی آواز ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی نواز ہوں
ہر دل کا ساز ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی نواز ہوں
امت مسلماں کا ساز ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی نواز ہوں
میاں شہباز شریف کے حوالے سے ایک یہ شعر بھی کسی نے کہا
چھپا رہا جو برسوں تم سے، ترقی کا وہ راز ہوں
میرا بھی احتساب کرو، میں بھی نواز ہوں
بعض روحیں بڑی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح نواز شریف اور شہباز شریف کی روح سفر ہو جائیں وہ ایسی بد روحیں ہیں کہ جنہوں نے نواز شریف کی وفادری میں عدلیہ کی اِسی توہین کی کہ عدلیہ نے ایک روح کو پانچ سال کے لیے نااہل، پچاس ہزار جرمانہ اور ایک ماہ کی قید سنا دی، اس روح نے ایک ماہ کی قید کاٹی جوں ہی باہر کی ہوا لگی، نصیحت پکڑنا تو دور کی بات اس کے اندر کا وفادار زیادہ جوش اور جذبے سے باہر آ گیا اور اس نے اپنی سابقہ روش کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ دو ہاتھ آگے ہی چلا گیا۔ کچھ شاہ کے وفاداروں کو عدالت نے توہین عددالت کے نوٹسز جاری کیے ہوئے ہیں، باہر تو یہ شیر ہوتے ہیں، کچھ تو نام کے بھی شیر ہیں لیکن عدالت میں بکری بنے دکھائی دیتے ہیں۔ تحریری معافی نامہ لکھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان شاہ کے وفاداروں کے خلاف عدالت کیا معاملہ کرتی ہے۔ البتہ عدالت عالیہ نے باپ، بیٹی کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ جو جی میں آتا ہے وہ کھلے عام کبھی اشاروں کناروں میں عدالت اور اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ایک اور وفادار جنہیں میاں صاحب ماضی میں کان پکڑ کر باہرکر چکے ہیں نے کہا کہ’ ایک ادارے نے گورننس اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اس طرز عمل سے ملک معلق ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ کو ایکشن لینا ہوگا، ججز سے ادب سے کہتا ہوں کہ وہ اپنا کام کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں، اگر وہ ہمارا کام کریں گے تو پھر ہمیں قانون سازی کرنا پڑے گی‘۔ یہ فرمانا ہے قبلہ مشاہد اللہ خان صاحب کا۔ شاید وہ یہ بھول گئے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کے توسط سے نااہل کو اہل قرار دے چکی، کیا ہوا اس قانون کا ؟ عدالت نے اسے اڑا کر پھینک دیا، صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس قسم کی بیان بازی معاملات کو اور زیادہ خراب کررہی ہے۔ سینٹ کے انتخابات 2018 ء کے انتخابات کا خوف ناک نقشہ کھینچتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خریدار اور بکنے والے اپنے اعمال میں کیا اضافہ کر رہے ہیں۔ کتنا کام آئے گا اقتدار اور کتنا کام آئے گی ناجائز دولت ایک نہ ایک دن تو خریدار اور بکنے والے کو سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے چلے ہی جانا ہو گا۔ سب کچھ اسی دنیا میں دھرا رہ جائے گا۔
نواز شریف کتنی ہی بہادری دکھاتے رہیں لیکن جوں ہی عدالت کوئی فیصلہ کرتی ہے وہ چپ کر کے اس پر عمل کر تے ہوئے باہر آکر شیر سے ببر شیر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ عدالت نے وزارت اعظمیٰ سے نا اہل کیا، اگلے ہی روز وزیر اعظم ہائوس سے تو باہر آگئے لیکن باہر نکل کر لگائی تڑی کہ اب کے نکال کر دکھاؤ، دوبارہ پارٹی کی صدارت سے نا اہل کیا، فوراً صدارت چھوڑ دی، باہر نکلے اور تڑی لگائی، اب کے نکال کر دکھاؤ، اب وزارت اعظمیٰ پر تو شریف خون نہیں یا پھر مصلحت سے کام لیا گیا، مریم بی بی تو پرجوش تھیں اس عہدہ پر براجمان ہونے کے لیے لیکن کیا مصلحت آڑے آئی نہیں معلوم، وزارت اعظمیٰ کا قرعہ خاقان عباسی کے نام نکلا، کچھ دائیں بائیں رہنے والوں نے اپنی سبکی محسوس کی اور انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹا لیا، پارٹی کی صدارت کے لیے اپنا ہی خون زیادہ بہتر لگا، اب وہ بیٹی یا بھائی دونوں میں سے ایک کا انتخابات ہی ہونا تھا، قرعہ فعال چھوٹے میں صاحب کے نام نکلا حالانکہ ان پر پنجاب کی حکمرانی کی بھاری ذمہ داری پہلے ہی تھی۔ لیکن اس میں بھی مصلحت اور سیاست ہی کار فرما ہے۔ میاں صاحب نے سو جتن کر لیے، جتنی تڑی دے سکتے تھے دے ڈالی، پر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا، نہ ہی میاں صاحب کی تڑی سے خوف زدہ کوئی دکھائی دیا، اب مسئلے کے حل کا دوسرا حل بیک ڈور ڈپلومیسی ہمیشہ سے ہی چلی آ رہی ہے۔ بڑے بڑے معاملات ظاہر میں کچھ ہوا کرتے تھے پر بیک ڈور ڈپلومیسی سے کوئی نہ کوئی حل سامنے آتا رہا ہے۔ میاں صاحب اس کا بھی خوب تجربہ رکھتے ہیں، دوستیاں میاں صاحب کے کام آتی رہی ہیں، لیکن اس بار میاں صاحب سخت گرفت میں آچکے ہیں، بقول ان کے مخالفین میاں صاحب اللہ کی پکڑ میں آئے ہوئے ہیں۔ پر ہیں مضبوط اعصاب اور بلند حوصلے کے مالک۔ میاں صاحب دل کے مریض، بیگم صاحبہ لندن میں اپنے مرض سے جنگ میں مصروفِ عمل لیکن میاں صاحب نے میدان سیاست کو بھر پور طریقے سے سجایا ہوا ہے۔ کامیابی یا ناکامی وقت بتائے گا۔
18 گریٹ کا افسر گرفتار ہوا تو حکومت نے اس کی 19 گریڈ میں ترقی کے آڈر جاری کر دیے، عدالت نے پوچھا کہ گریڈ 19 کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے، چیف سیکریٹری نے بتایا کہ ایک لاکھ کے قریب ہو گی، جب یہ پوچھا کہ احد چیمہ کتنے پیسے لیتا تھا تو وہ 15 لاکھ بتائی گئی۔
میاں صاحب کی سیاست کا بیانیہ سخت اور مختلف ہے، وہ اپنے بیانیہ پر سختی سے کاربند ہیں، ان کے قریبی درباری ان سے زیادہ شدت سے اداروں کے بارے پر تنقیدکرتے نظر آتے ہیں۔ شہباز شریف کا بیانیہ مختلف رہا ہے اور اب بھی وہی ہے۔ ان کا مزاج شروع ہی سے میانہ رہا ہے۔ ایک اعتبار سے شہباز شریف کا پارٹی صدارت کے لیے انتخاب میاں صاحب کے لیے یا مسلم لیگ کے حق میں مناسب نظر آتا ہے۔ ماضی میں دیکھا جائے تو شہباز شریف نے انتخابات میں خوب سیاست کی، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد وہ پنجاب کی ترقی میں لگے رہے، کام بھی کیا، ان کے اچھے کاموں کی مخالفین بھی مثال دیتے ہیں۔ وہ بیوروکریسی کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے میں بھی اچھی شہرت رکھتے ہیں، جس کی مثال حال ہی میں ان کے ایک قریبی رائٹ ھینڈ مین احد چیمہ کی ہے جس کو نیب نے گرفتار کیا تو حکومت پنجاب کی آشیر باد سے پنجاب کی بیوروکریسی نے تالا بند ہڑتال کی جو ناکام ہو گئی لیکن اس واقع سے یہ بات کھل کر ثابت ہو گئی کہ شہباز شریف کو احد چیمہ کی گرفتاری کی بہت فکر اور خطرہ نظر آرہا ہے، بعض تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ آگے جاکر یہ شخص چھوٹے میاں صاحب کے خلاف گواہ نہ بن جائے۔ یہی وجہ تھی کہ پوری پنجاب حکومت نے احد چیمہ کی گرفتاری پر واویلا مچایا یہاں تک کہ پنجاب اسمبلی میں اس کی حمایت میں قرار داد بھی منظور کرالی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے احد چیمہ کی گرفتاری پر بیورو کریٹس کی ہڑتال پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تنبیہہ کی اور کہا کہ جس کو جانا ہے چلا جائے، ہڑتال کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ صدارت سنبھالتے ہی شہباز شریف پر احد چیمہ کی گرفتاری کا بم گر پڑا، ایک جانب احد چیمہ کو محنتی افسر کہا جارہا ہے تو دوسری جانب آمدنی سے بڑھ کر اثاثے، 18 گریٹ کا افسر گرفتار ہوا تو حکومت نے اس کی 19 گریڈ میں ترقی کے آڈر جاری کر دیے، عدالت نے پوچھا کہ گریڈ 19 کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے، چیف سیکریٹری نے بتایا کہ ایک لاکھ کے قریب ہو گی، جب یہ پوچھا کہ احد چیمہ کتنے پیسے لیتا تھا تو وہ 15 لاکھ بتائی گئی۔ یہ تو جائز طریقے کی آمدنی ہے۔ دیگر جائیداد و اثاثہ جات اب نیب میں سامنے آ رہے ہیں۔ باقی ماندہ جلد سامنے آجائیں گے۔
بات شہباز شریف کے ٹوئیت کے مصرعہ سے شروع کی تھے۔ جس میں شہباز شریف نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اور دیگر نون لیگی ’ہم روح سفر‘ ہیں، وہ اپنی مسلسل کاوش، جہت اور مقصد کو ہر صورت جاری رکھیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ نام سے کیا ہوتا ہے۔ خون ایک ہے، سوچ ایک ہے، البتہ دونوں کے کام کا انداز اور تعلقات کا انداز مختلف ہے، سب لیگی مسلسل کاوش اور جدوجہد چاہتے ہیں۔ شہباز کا طریقہ کار ممکن ہے مستقبل میں شریف فیملی کو کچھ ریلیف دے جائے، نرم رویہ، اداروں سے عدم ٹکراؤ کی پالیسی، اداروں کے سربراہوں سے اچھے تعلقات، پارٹی میں بھی شہباز قدرِ اعتدال پسند تصور کیے جاتے ہیں۔ چوہدری نثار کی مثال سامنے ہے وہ صاف الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ وہ’ میاں نواز شریف کے ماتحت کام کرنے کو تیار ہیں، وہ شہباز کے انڈر میں کام کرنے کو بھی تیار ہیں لیکن وہ مریم نواز کے ماتحت انہیں میڈیم او ر سر کہنے کے لیے تیار نہیں‘۔ اگر مریم نواز پارٹی صدارت کی حق دار ٹہرتیں تو پارٹی میں زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جانا تھا۔ وہ عمل تو اب بھی شروع ہو چکا ہے۔ سینٹ الیکشن نے پارٹی میں کئی ناراض اور مخالفین کی نشاندھی کر دی ہے، کچھ تو اعلانیہ نون لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے کہا جارہا ہے پنجاب کے 27 نون لیگی ایسے ہیں جنہوں نے نون لیگ کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ آئندہ الیکشن تک یہ اراکین کھل کر نون لیگ سے بغاوت کر لیں گے۔ اس ٹوٹ پھوٹ میں تیزی بھی آسکتی ہے، وہ ایم کیو ایم کی طرح مختلف دھڑوں میں تقسیم نہ بھی ہوئی تو اس کے بڑے بڑے گروپس پی ٹی آئی اور پی پی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اب یہ شہباز شریف کی پالیسی پر منحصر ہے کہ وہ پارٹی کو کس طرح ایک رکھتے ہیں۔ زرداری صاحب نے کہا تھا کہ’ وہ چار سال سیاست نہیں کریں گے، پانچویں سال سیاست میں بھر پور کردار ادا کریں گے ‘، انہوں نے ایسا کر دکھایا، سیاست میں ان کی انٹری بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں سامنے آئی اور اب سینٹ کے الیکشن میں ان کا کردار دنیا نے دیکھا۔ دیکھیں نون لیگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کوئی شک نہیں شہباز شریف روح سفر ہیں۔
بشکریہ ..... رئیس احمد صمدانی