PDA

View Full Version : عدلیہ کا صوابدیدی اختیار،’انتظامیہ کو بے 



smartguycool
02-03-2018, 03:32 PM
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے عدلیہ کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صوابدیدی اختیار کے لمبے ہاتھ انتظامیہ کو بے بس کرنے کے بعد مقنّنہ تک پہنچ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ روز جمعرات کو ہی مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت کرنے پر سزا سنائی ہے اور دیگر دو اراکین کو بھی توہین عدالت کے نوٹسز ارسال کیے گئے ہیں۔
کراچی میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ’عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا مقصد چند ججوں کی بحالی نہیں تھا بلکہ ’ہم یہ اصول تسلیم کروانا چاہتے تھے کہ کسی آمر کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے ججوں پر دباؤ ڈالے، انھیں قید کرے اور انھیں عدالتوں سے نکال باہر کرے۔
انھوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم عدلیہ بحالی میں تو کامیاب ہو گئے لیکن وہ صبح طلوع نہ ہو سکی جسے عدل کی تابناک صبح کہا جا سکے۔
ڈکٹیٹر کو اجازت
نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں منتخب نمائندوں کے مقابلے میں آمروں کو من مانی کا اجازت دی گئی۔
ہمارا المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ہماری عدلیہ نے سیاست دانوں اور منتخب نمائندوں کے بارے میں ہمیشہ انتہائی سخت اور اکثر انصاف کے تقاضوں کے منافی رویہ اختیار کیا جبکہ ڈکٹیٹر انھیں ہمیشہ بہت عزیز رہے۔ یہ فرق آپ جاننے کی کوشش کریں۔ منتخب پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کا آپریشن بھی ہوتا رہا لیکن آمروں کی آئین شکنی کو نہ صرف جواز عطا کر دیا گیا بلکہ انھیں آئین میں من مانی چیڑ چھاڑ کی اجازت بھی دی جاتی رہی اور آپ جانتے ہیں میں کس کی بات کر رہا ہوں ارشاد حسن خان صاحب کی۔
انھوں نے کہا کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات ہماری عدلیہ کو ہمیشہ بہت عزیز رہے ہیں۔ ان مقدمات کے فیصلے بہت تیزی سے کیے جاتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وکلا برادری کو یہ بھی جائزہ لینا ہو گا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدلیہ کا صوابدیدی اختیار اس دائرے میں ہے جو آئین بنانے والوں کے پیش نظر تھا۔
نواز شریف نے کہا کہ آج وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہو چکا ہے۔
ان کے بقول ’وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ وہ کسی انتظامی عہدے دار کا تقرر بھی نہیں کر سکتی۔ روز مرّہ کے عمومی معاملات سے لے کر پالیسی اقدامات تک انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا یہ اختیار بھی سلب کر لیا گیا کہ وہ کسی اہم معاملے پر جوڈیشل کمیشن قائم کرے۔
انھوں نے سوال کیا کہ اگر ریاست کا ایک ستون دوسرے پر اپنے صوابدیدی اختیار کے کوڑے برسانے لگے تو کیا دستوری نظام برقرار رہ سکے گا؟
میاں نواز شریف نے الزام عائد کیا کہ صوابدیدی اختیار کے لمبے ہاتھ انتظامیہ کو بے بس کرنے کے بعد مقنّنہ تک پہنچ چکے ہیں۔
’اس وقت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا ایک قانون عدلیہ کے سامنے ہے۔
اپنی تقریر کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں تسلیم کرتا ہو کہ عدلیہ کا عزت و احترام ضروری ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ اپنے مرتبے اور اپنے وقار کا لحاظ کرتے ہوئے دوسروں کی عزت و نفس کا بھی خیال کرے۔
’سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا کہ ہم وزیراعظم کو بھی طلب کر سکتے ہیں اور وزیراعظم کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ ہے۔ یہ کسی فرد واحد کی نہیں میری نہیں وزیراعظم کے منصب کی توہین ہے۔ میں نے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو خط لکھا اور اس طرف توجہ دلائی لیکن چیف جسٹس نے وزیراعظم کے ’خط کا جواب دینا تو درکنار رسید دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔
انھوں نے گلہ کیا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں ان کے لیے گاڈ فادر اور سیسیلین مافیا کے الفاظ استعمال کیے گئے۔
انھوں نے عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ صادق امین ٹھہرے اور سارا نزلہ نواز شریف پر گرا دیا گیا،سات صفحات لکھ کر۔