smartguycool
02-01-2018, 09:19 PM
حاتم پیر ودھائ اڈّے پر سر پکڑے بیٹھا تھا کہ “ھاتف” نے صدا دی
وے سب توں سوھنیاں
ہائے وے من موہنیاں
میں تیری ھووووووووو
اس نے جھٹ جیب سے موبیل نکالا- دوسری طرف شہزادی کا پرسنل سیکرٹری “استاد بشیر ” تھا
پہلے سوال دا جواب مینوں ای میل کر تے دوجے دی تیّاری پھڑ
حاتم نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا
“آپ کے ملائے ہوئے صارف نے اپنا موبیل بند کر رکھا ہے ، براہ کرم کچھ دیر بعد رابطہ کریں
وجہء بے فکری کچھ یوں تھی کہ ہفتہ پہلے ہی شہزادی نے دوسرا سوال حاتم کو ٹویٹ کر دیا تھا اور اب وہی سوال کالے مچھر کی طرح اسکے کانوں میں بھنبھنا رہا تھا
اس شخص کا “اسٹیٹس” بیان کرو جو کہتا ہے
“شادی کر دریا میں ڈال”
اس مختصر مگر جامع گُتھی کو سلجھانے کےلئے وہ ستلج تا بیاس ، ہر اس کھائ میں گھس چکا تھا جسے ساون بھادوں میں عموماً دریا کہا جاتا ہے
اوپر سے پیرِ فرتوت بھی غائب تھے
کسی متبادل بزرگ کی تلاش میں وہ بے شمار “النّ” قسم کے فقیروں سے ملا ، اور جی بھر کے مایوس ہوا- کوئ گُرگِ باراں دیدہ اس گتھی کو سلجھانے پر قادر نہ تھا جسے شادی سمجھ کر دریا میں پھینکنا تھا
ایک بنی گالوی قسم کے بزرگ تو سوال سنتے ہی بھڑک اٹھے ، فرمایا
نا اھل حکومت نے عوام کے ساتھ ساتھ دریاؤں کا بیڑا بھی غرق کر رکھا ہے ، اوّل تو بہتے نہیں اور بہنے پہ اتر آئیں تو سب کچھ بہا کے لے جاتے ہیں- جملہ یوں ہونا چاھئے
شادی کر تندُور میں ڈال
حاتم نے پوچھا
یا للعجب وہ کیسے ؟؟
وہ گویا ہوئے
” اگر شادی کو دریا میں پھینکا گیا تو یہ سیلابی پانی میں ناچتی ہوئ دوبارہ آبادی میں آن گھُسے گی- اس پھٹیچر کو تندور میں پھینکنا چاھئے … نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
نالہ لئ والے سرخ پوش نے نقطہ اٹھایا کہ جملے کی ترکیبِ نحوی میں “شادی کر” حرفِ اضافی ہے- اگر بدمست حکومت دریا میں کچھ نہ کچھ ڈالنے پر بضد ہی ہے تو دو چار منسٹر ہی پھینک دے … کم از کم خشک سالی تو دور ہو گی
حاتم ان جعلی درویشوں سے بچتا بچاتا رجانہ سے کمالیہ پہنچا اور ناک کی سیدھ میں چلتے چلتے دریائے راوی میں چھلانگ لگا دی
گھنٹہ بھر دھول مٹی اڑانے کے بعد وہ بمشکل دوسرے کنارے پر آن لگا
اس نے ایک سبزپوش کو دیکھا جو بیری کے پتے جسم پر لپیٹ کر چت سویا پڑا تھا اور کووّں کا ایک غول اس کے اوپر منڈلاتا تھا
حاتم نے پاس آ کر سلام کیا اور کہا
” اے سبز پوش ، اگر آپ فوت ہو چکے ہیں تو کوّوں کو اطلاع کر دوں ؟؟
اس پر وہ پیر مرد پانسا پرت کے بولا
مرا نہیں ، فی الحال اکڑا ہوں ، اور یہ اکڑ دائمی نہیں ، سردی کی وجہ سے ہے
حاتم نے کہا
خدا آپ کو حیات خضر عطا کرے ، مجھے تو طائران لاہوتی کی پرواز سے بدگمانی ہوئ جو آپ کے سراقدس پر برابر منڈلا رہے ہیں
بزرگ نے کہا
یہ دیسی کوّے ہیں ، سرکاری نہیں جو زندہ مردہ میں تمیز نہ کر سکیں
اس کے بعد وہ بزرگ ایک طویل جماہی لیکر بولے
ٹائم کی ہویا
حاتم نے کہا ” وہی جو کل اس وقت ہوا تھا ….. اے بزرگِ نیک طینت !!! قصّہ یہ ہے کہ بھائ پھیرو کا شہزادہ منیر شامی اسلام آباد کی شہزادی
بزرگ بات کاٹ کے بولے
بس کرو … سن چکا ہوں یہ بیکار قصّہ پہلے میری کہانی سنو … کوئ زمانے کی بات ہے کہ ایک کوّا پیاسا تھا … اس نے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائ
حاتم بات کاٹ کر بولا
اے سخن ور !! میں بھی یہ گھٹیا کہانی بارہا سن چکا ہوں ، کچھ تازہ ہو تو ارشاد فرمائیے
اس پر وہ بزرگ دیر تک کھانسے ، پھر یکایک بریک لگا کر بولے
بے شک کم فہموں کے نزدیک یہ بیکار کا قصہ ہے ، مگر دور اندیش حکمرانوں کےلئے اس میں حکمت کے موتی پنہاں ہیں- چنانچہ جس نگری سے انہیں اپنا امیدوار ہارتا نظر آئے وہاں راتوں رات ایک ٹرک کنکریوں کا پھینکوا دیتے ہیں- پکی سڑک کے آثار دیکھ کر عوام کی ذھنی سطح بلند ہو جاتی ہے ، اور نا اھل امیدوار ووٹ لیکر کائیں کائیں کرتا اڑ جاتا ہے
وے سب توں سوھنیاں
ہائے وے من موہنیاں
میں تیری ھووووووووو
اس نے جھٹ جیب سے موبیل نکالا- دوسری طرف شہزادی کا پرسنل سیکرٹری “استاد بشیر ” تھا
پہلے سوال دا جواب مینوں ای میل کر تے دوجے دی تیّاری پھڑ
حاتم نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا
“آپ کے ملائے ہوئے صارف نے اپنا موبیل بند کر رکھا ہے ، براہ کرم کچھ دیر بعد رابطہ کریں
وجہء بے فکری کچھ یوں تھی کہ ہفتہ پہلے ہی شہزادی نے دوسرا سوال حاتم کو ٹویٹ کر دیا تھا اور اب وہی سوال کالے مچھر کی طرح اسکے کانوں میں بھنبھنا رہا تھا
اس شخص کا “اسٹیٹس” بیان کرو جو کہتا ہے
“شادی کر دریا میں ڈال”
اس مختصر مگر جامع گُتھی کو سلجھانے کےلئے وہ ستلج تا بیاس ، ہر اس کھائ میں گھس چکا تھا جسے ساون بھادوں میں عموماً دریا کہا جاتا ہے
اوپر سے پیرِ فرتوت بھی غائب تھے
کسی متبادل بزرگ کی تلاش میں وہ بے شمار “النّ” قسم کے فقیروں سے ملا ، اور جی بھر کے مایوس ہوا- کوئ گُرگِ باراں دیدہ اس گتھی کو سلجھانے پر قادر نہ تھا جسے شادی سمجھ کر دریا میں پھینکنا تھا
ایک بنی گالوی قسم کے بزرگ تو سوال سنتے ہی بھڑک اٹھے ، فرمایا
نا اھل حکومت نے عوام کے ساتھ ساتھ دریاؤں کا بیڑا بھی غرق کر رکھا ہے ، اوّل تو بہتے نہیں اور بہنے پہ اتر آئیں تو سب کچھ بہا کے لے جاتے ہیں- جملہ یوں ہونا چاھئے
شادی کر تندُور میں ڈال
حاتم نے پوچھا
یا للعجب وہ کیسے ؟؟
وہ گویا ہوئے
” اگر شادی کو دریا میں پھینکا گیا تو یہ سیلابی پانی میں ناچتی ہوئ دوبارہ آبادی میں آن گھُسے گی- اس پھٹیچر کو تندور میں پھینکنا چاھئے … نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
نالہ لئ والے سرخ پوش نے نقطہ اٹھایا کہ جملے کی ترکیبِ نحوی میں “شادی کر” حرفِ اضافی ہے- اگر بدمست حکومت دریا میں کچھ نہ کچھ ڈالنے پر بضد ہی ہے تو دو چار منسٹر ہی پھینک دے … کم از کم خشک سالی تو دور ہو گی
حاتم ان جعلی درویشوں سے بچتا بچاتا رجانہ سے کمالیہ پہنچا اور ناک کی سیدھ میں چلتے چلتے دریائے راوی میں چھلانگ لگا دی
گھنٹہ بھر دھول مٹی اڑانے کے بعد وہ بمشکل دوسرے کنارے پر آن لگا
اس نے ایک سبزپوش کو دیکھا جو بیری کے پتے جسم پر لپیٹ کر چت سویا پڑا تھا اور کووّں کا ایک غول اس کے اوپر منڈلاتا تھا
حاتم نے پاس آ کر سلام کیا اور کہا
” اے سبز پوش ، اگر آپ فوت ہو چکے ہیں تو کوّوں کو اطلاع کر دوں ؟؟
اس پر وہ پیر مرد پانسا پرت کے بولا
مرا نہیں ، فی الحال اکڑا ہوں ، اور یہ اکڑ دائمی نہیں ، سردی کی وجہ سے ہے
حاتم نے کہا
خدا آپ کو حیات خضر عطا کرے ، مجھے تو طائران لاہوتی کی پرواز سے بدگمانی ہوئ جو آپ کے سراقدس پر برابر منڈلا رہے ہیں
بزرگ نے کہا
یہ دیسی کوّے ہیں ، سرکاری نہیں جو زندہ مردہ میں تمیز نہ کر سکیں
اس کے بعد وہ بزرگ ایک طویل جماہی لیکر بولے
ٹائم کی ہویا
حاتم نے کہا ” وہی جو کل اس وقت ہوا تھا ….. اے بزرگِ نیک طینت !!! قصّہ یہ ہے کہ بھائ پھیرو کا شہزادہ منیر شامی اسلام آباد کی شہزادی
بزرگ بات کاٹ کے بولے
بس کرو … سن چکا ہوں یہ بیکار قصّہ پہلے میری کہانی سنو … کوئ زمانے کی بات ہے کہ ایک کوّا پیاسا تھا … اس نے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائ
حاتم بات کاٹ کر بولا
اے سخن ور !! میں بھی یہ گھٹیا کہانی بارہا سن چکا ہوں ، کچھ تازہ ہو تو ارشاد فرمائیے
اس پر وہ بزرگ دیر تک کھانسے ، پھر یکایک بریک لگا کر بولے
بے شک کم فہموں کے نزدیک یہ بیکار کا قصہ ہے ، مگر دور اندیش حکمرانوں کےلئے اس میں حکمت کے موتی پنہاں ہیں- چنانچہ جس نگری سے انہیں اپنا امیدوار ہارتا نظر آئے وہاں راتوں رات ایک ٹرک کنکریوں کا پھینکوا دیتے ہیں- پکی سڑک کے آثار دیکھ کر عوام کی ذھنی سطح بلند ہو جاتی ہے ، اور نا اھل امیدوار ووٹ لیکر کائیں کائیں کرتا اڑ جاتا ہے