Log in

View Full Version : گیلی شلوار



smartguycool
01-25-2018, 06:31 PM
والد صاحب کو کسی نے بتایا کہ اگر تمھارا بیٹا حافظ بن گیا تو آپ بنا کسی حساب کتاب کے جنت بھیج دئے جائے گے۔ بےشک آپ کے گناہ سمندر کی جھاگ برابر ہوں

گھرانہ تو ہمارا دیوبندی تھا۔ مگر جس مدرسے میں میرا داخلہ ہوا وہ بریلوی مسلک کا تھا۔۔ پہلا دن مولانا صاحب نے ہمیں صرف گھورنے میں گزار دیا۔ لال لال دہکتی آنکھیں چہرے پر بال ہی بال غالب
اگلے دن ہمیں پاس بلا کر کہا پڑھو” الف ” ہم نے بھی پڑھا ال۔۔۔ ابھی الف کی ف ہمارے منہ سے اپنے کامل حالت میں برآمد نہ ہوئی تھی۔ کہ ایک لاہوتی قسم کا مکا میری گردن کے پچھلے حصے میں چامپ دیا گیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے بنا ہیلمٹ کے بیٹسمین چہرا بچاتے ہوئے گردن گھمائے اور بال گردن میں لگ جائے۔
اس اچانک باونسر پر ہم نے مولانا کو سوالیہ مگر قدرے غصیلی نظروں سے دیکھا۔
بس اب کیا تھا
ہماری اس حرکت نے ہمیں ان کی نظر میں وہ ابلیس بنادیا جو میلاد کے موقع پر تمام جہاں کے خوش ہونے کے باوجود بھی خوشیاں نہیں مناتا۔
کچھ دنوں تک ہم روز گیلی شلوار گھر لیجاتے رہے، مولانا نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اس وقت تک مارتے جب تک یہ کنفرم نہ ہوجاتا کہ ہماری شلوار اور آنکھیں دونوں بھرپور نم ہوگیئں ہیں۔ ہماری امی روز کی اس گیلی شلوار سے اکتا گئی۔
ابو سے کہا خدارا اپنے بل بوتے پر جنت جانے کی سعی کرے اس بیچارے کے اندر تو مولانا نے سفید خون ختم کردیا ہے
شکر ہے اس وقت یہ ڈائپر ایجاد یا ہمارے محلے میں دستیاب نہیں تھے۔ ورنہ ابو نے اپنی جنت کے شوق میں وہ بھی پہنا دینے تھے۔

بہرحال ابو بھی تائب نہ ہوئے وہاں سے نکال کر ہمیں ایک افغانی فارسی اسپیکنگ دیوبندی مولانا صاحب کو بطور امانت پیش کردیا۔
یہاں ہم الحمداللہ الف سے ب تک گئے ب سے ث ج ح تک پہنچ گئے مگر ۔۔۔۔۔۔” خ” ۔۔۔۔آہ۔۔۔
یہ خ ابا جان کی مفت جنت کے راستے میں حائل ہوگئی۔

مولانا کے منہ سے ایک عجیب و پراسرار قسم کا ” خ” برآمد ہوتا، جیسے کوئی دور سے میزائل ماردے۔ اور اس کی سیٹی قریب آتی جائے آتی جائے “شششو” کرکے آپ کے اوپر سے گزر جائے۔” ہم سے بھی ایز اٹ اس “خ” نکالنے کو کہتے
ہم اپنے چھوٹے سے منہ کو تکونا، چھکونہ، ہاتھ سے گلا دباتے ہوئے، نچلا ہونٹ انگلیوں میں سکھیڑ کر اس جنگی “خ ” کو نکالنے کی بھرپور ناکام کوشش کرتے رہتے

بلا آخر ایک دن جب ہم نے خوب محنت و ریاضت کے بعد اپنی تیار کردہ ” خ” کو مولانا صاحب کے حضور پیش کیا تو انہوں نے ہم سے کہا جاو وہاں بچوں کے پنڈال سے ذرا پرے خالی جگہ میں کھڑے ہوجاو۔
جب آپ سب کو پڑھا سہلا کر فارغ ہوئے تو ہماری جانب اگئے۔ میں ابھی ان کے اقدام کو سمجھنے کی کوشش میں ہی تھا کہ محترم نے پہلوانی ٹرک” یعنی لنگڑی ڈال کر ہمیں زمین پر پٹخ دیا،،، شکر اس بات کا بھی ہے کے اس زمانے میں مشہور ریسلر جون سینا نہیں تھے ۔۔ ورنہ مولانا صاحب نے ان کا وہ انگلیاں دکھانے والا اسٹائل اپنا کر ہمیں بھی اول انگلیاں دکھانی تھی۔
کوئی پندرہ منٹ تک مولانا صاحب خود کو اس میدان کا اکلوتا شہسوار اور ہمیں شام غریباں کا گستاخ ذاکر سمجھ کر اس احاطے میں گھسیٹتے رہے۔ کیونکہ دھیمی آواز میں ان کے منہ سے نکلتے تکبیر کے نعرے ہم نے اپنوں لال سرخ کانوں سے سن لئے تھے۔
اس دن ہم انتہائی نڈھال گھر آئے۔ فقط گیلی شلوار ہی نہیں شلوار میں اور بھی ڈیر سارا مواد ساتھ لائے۔ جس کا اندازہ امی کو ہمارے گھر داخل ہوتے ساتھ ہی ہوگیا سب سننے سے پہلے ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہمیں غسل خانے میں جانے کا اشارہ دیا۔
یہ روداد رات کو ابا جان کو سنائی گئی۔ تو پریشان ہوئے جیسے ان کی جنت بھی ضروری ہو اور ہماری صحت بھی۔ مایوسی کی عالم میں ہماری طرف دیکھا ہم جو پہلے سے ہی خود پر نزاع جیسی کیفیت طاری کئے ہوئے تھے ابا کو رحم کی بھیک مانگتی آنکھوں سے جوابا دیکھا۔ کیونکہ ہم جانتے تھے کہ محلے میں ابھی ایک مدرسہ اور باقی ہے۔ جس میں انتہائی قسم کے ایک اہلحدیث استاد پڑھاتے ہیں۔۔ اور بدعت کے الزم متعدد بچوں کا سر توڑ چکے تھے۔ خیر ابا کو ہمارے حال پر رحم آیا۔ امی سے کہا۔ کپڑے تیار کرو کل سے میں خود سہ روزے میں جاوں گا۔




بشکریہ …… قاری حنیف ڈار

intelligent086
01-26-2018, 04:50 AM
عمدہ اور خوب صورت انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ